ماسوائے پاکستان کے سب ممالک نے اپنے رائس سیکٹرز کو صنعت کا درجہ دے رکھا ہے،ترجمان پاکستان رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن

فیصل آباد۔ (اے پی پی) پاکستان رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے ترجمان نے بتایا کہ اس وقت بھارت بین الاقوامی منڈی میں چاول کا سب سے بڑا بیوپاری ہے جبکہ پاکستان،برازیل،تھائی لینڈاور ویتنام سے بھی چاول کی بڑی کھیپ سپلائی ہوتی ہے تاہم ماسوائے پاکستان کے سب ممالک نے اپنے رائس سیکٹرز کو صنعت کا درجہ دے رکھا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس پر توجہ نہیں دی گئی جس کے باعث پاکستان میں چاول کی برآمد کا حجم 2ارب 35کروڑ ڈالر ہے جسے حکومتی تعاون سے آئندہ چند سال میں بڑی آسانی سے 4سے 5ارب ڈالر تک لے جایا جاسکتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان کا بہت بڑا المیہ ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود زرعی شعبہ مسلسل تنزلی کا شکار رہا ہے اور ہماری بڑی فصلیں جن میں گنا،گندم،کپاس اور چاول کا شمار ہوتا ہے ہم ان میں بھی خود کفیل نہیں ہوسکے اور نہ ہی برآمد ات بڑھا سکے بلکہ الٹا عالمی سطح پر ہم نے برآمد کا حصہ کھویا ہے یہی وجہ ہے کہ ٹیکسٹائل اور چاول جیسی مصنوعات کی برآمدمیں کمی کی وجہ سے 2019ء میں درآمدات و برآمدات میں فرق 34 ارب ڈالر تک چلاگیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے زرعی شعبے میں چاول کی برآمدات کا بڑا حصہ ہے لیکن اس سیکٹر کو بدقسمتی سے حکومتی معاونت میسر نہیں رہی یہی وجہ ہے کہ ہمارے چاول کا کسان اور برآمدکنندہ دونوں تشویش کا شکار نظر آتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان کا چاول دنیا بھر میں اپنی خوشبو اور ذائقے کی وجہ سے جانا پہنچانا جاتا ہے تاہم اگر وفاقی حکومت رائس سیکٹر کو انڈسٹری کا درجہ دیدے تو صرف ملکی زراعت میں ہی انقلاب نہیں آئے گا بلکہ پاکستانی چاول کے ایکسپورٹ کی مد میں مزید 30فیصد اضافہ اور ملک کیلئے کثیرزرمبادلہ کماسکتے ہیں جس کیلئے حکومت کو کوئی ریلیف پیکج بھی نہیں چاہیے۔انہوں نے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں چاول کی برآمد کا حجم دوارب 35کروڑ ڈالر ہے جسے حکومتی تعاون سے آئندہ چند سال میں ہی بڑی آسانی سے چارسے 5 ارب ڈالر تک لے جایا جاسکتا ہے جو کوئی بڑا ہدف نہیں اور اس سے نہ صرف چاول کی فصل اور صنعت کو ترقی ملے گی بلکہ معاشی ترقی کی راہ میں مدد ملے گی۔انہوں نے کہا کہ دنیا کا بہترین چاول پاکستان میں پیدا ہوتا ہے تاہم ریسرچ انسٹی ٹیوٹس کا فقدان ہے، بھارت سے ایکسپورٹ ہونے والا چاول کوالٹی کے لحاظ سے پاکستا ن سے کم ہے اسلئے دنیا میں بھارتی چاول کی قیمت کم ہے جبکہ پاکستانی چاول 100ڈالر فی ٹن مہنگا بکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ رائس ایکسپورٹر ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین نے چین کے نجی شعبے کے سائنس دانوں کی 20 سال کی مشترکہ تحقیق کے بعد چاول کا ہائبرڈ بیج تیارکرلیا ہے اوریہ بیج مقامی استعمال اور بین الاقوامی طور پر برآمدی مقاصد کیلئے تیار کیا گیا ہے جبکہ یہ بیج مقامی استعمال میں نمایاں پیداوار کے حامل چاول کے ہائبرڈ بیج کی برآمد کے ساتھ جلد ہی اعلیٰ پائے کی زرعی تحقیق کرنے والے ممالک کے کلب میں شامل ہوجائے گا نیز تجارتی ضوابط کی منظوری کے مختلف مراحل کے بعد پاکستان کی 72سالہ تاریخ میں پہلا موقع ہوگا کہ چاول کا ہائبرڈ بیج برآمد کیا جائے گا۔انہوں نے بتایا کہ ابتدائی طور پر 100ٹن ہائبرڈ بیج برآمد ہوگا جو تقریباً15ہزار ایکڑ زمین کاشت کرنے کیلئے کافی ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے گرم موسم اور پانی کی کمی سے نمٹنے کی صلاحیت کے حامل بیج کی اہمیت بڑھ گئی ہے اس حوالے سے پاکستان میں چاول کی بہترین پیداواری صلاحیت کے حاول ہائبرڈ بیج کی کامیاب کاشت ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ زرعی ادویات و کیمیکلز کی قیمتیں بھی بھارت میں پاکستان سے کہیں زیادہ ہیں لہٰذا اگر ان تمام اشیاء کا موازنہ کرلیں توبھارتی کسان فائدے میں اور ہمارا کسان نقصان میں ہے جس سے ظاہر ہے کہ اسکے تمام اثرات صنعتوں پر پڑتے ہیں۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ حکو مت اس جانب خصوصی توجہ مرکوز کرے گی۔

Comments are closed.