وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہاہے کہ بدلتے ہوئے حالات نے نئے تقاضوں او رچیلنجز کو جنم دیا ہے جس کے پیش نظر ہمیں سیکیورٹی سمیت دیگر شعبوں میں قابل اور باصلاحیت افسروں کی ضرورت ہے تاکہ بہتر ہیومن ریسورس دستیاب ہوسکے، ان خیالا کا اظہار انہوں نے بلوچستان کے دورے پر آئے ہوئے نیشنل پولیس اکیڈمی اسلام آباد کے 46ویں کامن کورس کے پی ایس پی اور ایئرفورس آفیسران سے خطاب کرتے ہوئے کیا، اس موقع پر ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ حیدر علی شکوہ، ایڈیشنل چیف سیکریٹری منصوبہ بندی وترقیات عبدالرحمن بزدار، سیکریٹری خزانہ نورالحق بلوچ، آئی جی پولیس بلوچستان محسن حسن بٹ، ڈی آئی جی عبدالرزاق چیمہ بھی موجود تھے جبکہ وفد میں نیشنل پولیس اکیڈمی اسلام آباد کے 46ویں کامن کورس کے 29اور ایئرفورس کے دو آفیسرز شامل تھے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہمیں سسٹم ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مجموعی گورننس میں بہتری آسکے، اس ضمن میں اداروں کے مالی اور انتظامی امور سے متعلق بہتری اہمیت کی حامل ہے جس سے اداروں میں نظم وضبط کو پروان چڑھایا جاسکتا ہے، اجلا س کے شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ سسٹم کو بہتر کرنے کی ذمہ داری بھی ہم سب کی ہے، اگر سسٹم بہتر ہوگا تو اس کے اثرات واضح طور پر نظر آئیں گے،انہوں نے کہا کہ ملک اور صوبوں کو قابل اور اپنے پیشے سے مخلص آفیسرز کی ضرورت ہے جو ملکی وقار اور عظمت پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہ کریں، اس موقع پر کورس کے شرکاء کی جانب سے وزیراعلیٰ سے سوالات پوچھے گئے، امن وامان سے متعلق پوچھے گئے سوال پر وزیراعلیٰ نے کہا کہ ماضی میں کمزور گورننس کا مسئلہ رہا ہے، اس سلسلے میں کبھی باقاعدہ پلاننگ او رمنصوبہ بندی نہیں کی گئی،موجودہ صوبائی حکومت صوبے کی مجموعی گورننس اور سروسز اسٹریکچر میں بہتری کے لئے خاطر خواہ اقدامات کررہی ہے تاکہ اہم عہدوں پر اہل اور باصلاحیت افراد تعینات ہوں، وزیراعلیٰ نے کہا کہ رواں مالی سال کے بجٹ میں ترقیاتی منصوبوں پر حکومت پوری طرح سے عمل پیرا ہے ہم نے 3000کے لگ بھگ جعلی اسکیمات ترقیاتی پروگرام سے خارج کردی ہیں، ہم ایک بہترین میکنزم کے ساتھ شفافیت اور مانیٹرنگ کے عمل کو بہتر بنارہے ہیں، اے اور بی ایریاز سے متعلق پوچھے گئے سوال پر وزیراعلیٰ نے کہا کہ خرابی اے اور بی ایریاز کی نہیں بلکہ سسٹم کی ہے، ہم نے کبھی لیویز فورس میں ہیومن ریسورس کی بہتری لئے سے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے نہ ہی انہیں بہترین ٹریننگ مہیاکی گئی ہے،جس کے باعث عوام کو لیویز کی جانب سے بہترین خدمات کی فراہمی میں غفلت کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا، ہمیں اپنے شہری علاقوں سے مطابقت رکھنے والی سہولیات دیہی علاقوں میں بھی فراہم کرنی ہیں تاکہ عوام کا معیار زندگی بہتر ہو، وزیراعلیٰ نے کہا کہ ماضی میں ہم سی پیک کے ثمرات سے پوری طرح خود کو مستفید نہیں کرپائے لیکن موجودہ حکومت نے سی پیک اور اس سے جنم لینے والے نئے مواقعوں سے خود کو باخبر رکھا ہے، سی پیک پاکستان اور بلوچستان کے وسیع تر مفاد کا لازمی جزو ہے، بلوچستان میں سی پیک کے ساتھ ساتھ قدرتی ذخائر بھی موجود ہیں ہمارے پاس کوئلہ، گیس، کاپر، ماربل، کرومائیٹ اور طویل ساحلی پٹی موجود ہے جس سے بھرپور استفادہ کرنے کی ضروت ہے، ہمیں اپنے وسائل کو بروئے کار لاکر پاکستان خصوصاً بلوچستان کو ترقی کے لازوال راستے پر گامزن کرنا ہے اور اس مقصد کا حصول تب ہی ممکن ہوگا جب ہم اسکل ڈویلپمنٹ پر سرمایہ کریں گے، بلدیاتی اداروں کی کارکردگی سے متعلق پوچھے گئے سوال پر وزیراعلیٰ نے کہا کہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ایک مثبت قدم ہے، بلدیاتی اداروں کو مالی خودمختاری دینے کی ضرورت ہے تاکہ ان اداروں کے استعداد کار کو بڑھایا جاسکے، جس سے ان میں مجموعی بہتری آئے گی، بلوچستان کے وسیع رقبے کو قابل کاشت بنانے اور اس سے خاطر خواہ فائدے کے حصول سے متعلق پوچھے گئے سوال پر وزیراعلیٰ نے کہا کہ صرف نصیرآباد ڈویژن میں کینال سسٹم موجود ہے جبکہ صوبے کا دیگر حصہ بارانی اور زمینی پانی سے استفادہ کرتا ہے، موجودہ صوبائی حکومت زیر زمین پانی کی سطح میں کمی کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر ڈیموں کی تعمیر کررہی ہے ماضی میں بنائے گئے ڈیمز حالات اور موسم سے مطابقت نہ رکھنے کے باعث ناکام ہوگئے لیکن موجودہ صوبائی حکومت ایسی ساخت کے ڈیموں کی تعمیر کرے گی جو دیرپا ہوں اس کے ساتھ ساتھ جن علاقوں میں کینال کے نظام سے پانی فراہم کیا جاتا ہے وہاں اس سسٹم کو پوری طرح موثر بنایا جارہا ہے، سڑکوں کی تعمیر اور انفراسٹرکچر سے متعلق پوچھے گئے سوال پر وزیراعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان میں دورویہ سڑکیں نہیں ہیں لیکن موجودہ حکومت وفاق کے تعاون سے کراچی تا چمن، ژوب تا کوئٹہ دورویہ سڑکوں کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے پوری طرح سنجیدہ ہے تاکہ بین الصوبائی زمینی رابطے کسی تعطل کا شکار نہ ہوں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبائی حکومت کے ترقیاتی منصوبے تین مراحل پر مشتمل ہیں جن میں ایک سالہ، دوسالہ اور تین سالہ منصوبے شامل ہیں جن کی مقررہ مدت میں تکمیل کے ثمرات جلد عوام تک پہنچیں گے، موجودہ صوبائی حکومت کے وژن سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ اگر ہم مثبت اور تعمیری سوچ کو پروان چڑھائیں گے تو صوبے میں مجموعی بہتری اور خوشحالی دیکھنے کو ملے گی، ہمیں ایک موثر معاشی پلان مرتب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان اور خصوصاً بلوچستان ترقی کی منازل احسن انداز میں طے کرسکے۔

Shares: