شیخوپورہ (نمائندہ باغی ٹی وی) شیخوپورہ کی تحصیل فیروزوالہ کے گاوں ونڈالہ دیال شاہ کی 15 سالہ مسیحی لڑکی ماریہ کو10 جون 2019 کو پانچ درندوں نے بعد از اغواء جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا
متاثرہ لڑکی کے باپ کے مطابق جنسی زیادتی میں دو پولیس والے بھی ملوث ہیں واقعہ کا مقدمہ ساجد اور 4 کس نامعلوم کے خلاف متاثرہ لڑکی کے والد کی مدعیت میں تھانہ فیروزوالہ ضلع شیخوپورہ میں درج کیا گیا ہے تاہم ابھی تک پولیس نے کسی ملزم کو گرفتار نہیں کیا
تفصیل کے مطابق متاثرہ لڑکی کے والد نے ایف آئی آر میں موقف اختیار کیا ہے کہ 9 جون 2019 کی دوپہر ساڑھے 4 بجے قسطوں کا کام کرنے والے نوجوان ساجد نے 4 کس نامعلوم کے ہمراہ اس کی بیٹی کو گھر سے زبردستی گن پوائنٹ پر اغواء کیا اور نامعلوم جگہ پر لے گئے اس بارے اہلِ علاقہ سہیل بابو اور نیامت وغیرہ نے مجھے بتایا کہ ہم نے ساجد کو تمہاری بیٹی کو گاڑی میں ڈال کر امامیہ کالونی کی طرف لےجاتے ہوئے دیکھا ہے
ہم نے ساجد کے دفتر کا چکر لگایا لیکن وہ بند تھا فون پر رابطہ کرنے پر اس نے کہا کہ ہم تمہاری بیٹی کو اس شرط پر واپس کریں گے کہ تم لوگ پولیس وغیرہ کو نہیں بتاو گے ورنہ تمہاری بیٹی کی لاش ملے گی ہم ڈر کے مارے گھر دبک کر بیٹھ گئے اگلے دن 10 جون رات 11 بجے کے لگ بھگ میری بیٹی کو وہ لوگ گھر کے باہر پھینک کر فرار ہوگئے
یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ماریہ کے والدین غریب تھے ان کا یہی وہ جرم تھا کہ یہ کیس سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کی زینت نہیں بن سکا۔
یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ھے کیونکہ مجرم بااثر ہیں جنہیں عرف عام میں معزز شخصیات کا نام بھی حاصل ہےاسی لیئے تو تھانے کچہری کی لونڈیاں منہ چھپائے بیٹھی ہیں غریب باپ انصاف کے لیئے در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے لیکن بوسیدہ عدالتی نظام اس بے بس باپ کو انصاف نہیں دلا سکتا
حیرت صرف اس بات پر نہیں ہوتی بلکہ دکھ اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ غریب کو تھانے میں لتریشن کے مراحل سے گزارا جاتا ہے لیکن امیروں کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے جاتے ہیں
اور جب چیف جسٹس کہتا ہے کہ پولیس اہلکار رات کو چوریوں میں ملوث پائے گئے ہیں تو بہت سے لوگ پولیس اہلکاروں کے حق میں بولتے نہیں تھکتے کہ یہ پولیس پر الزام ہے لیکن اب جبکہ جنسی زیادتی کا الزام ثابت ہو چکا ہے تو کیا وہی لوگ اس بے بس مسیحی باپ کی آواز بنتے ہوئے مجرم پولیس اہلکاروں کی سزا کا مطالبہ کریں گے؟
دو ہفتوں بعد ایف آئی آر کی کاپی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد بہت سے ایکٹیوسٹس نے اس معاملے کو اٹھایا تب جاکر اہل وطن کو معلوم پڑا کہ وطن کی ایک بیٹی کے ساتھ کیا ظلم ہو گزرا ہے
نمائندہ باغی ٹی وی شیخوپورہ کی طرف سے سوشل میڈیا پر اس مسئلے کو اجاگر کرنے پر اپر دیر کے رہائشی میر محسن الدین ایڈووکیٹ نے نمائندہ باغی ٹی وی شیخوپورہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر مذکورہ خاندان واقعی بے قصور اور ساجد و 4 کس نامعلوم مجرم قرار پاتے ہیں تو میں لاہور آکر مذکورہ متاثرہ خاندان کا کیس مفت لڑنے کو تیار ہوں تاکہ نہ صرف متاثرہ خاندان کی دل جوئی ہو سکے بلکہ مجرموں کو پیغام جائے کہ بے بس افراد اکیلے نہیں ہیں ابھی وطن میں ایسے اہل درد موجود ہیں جو ظلم کے شکار مظلوم لوگوں کے پشتی بان بننے کو تیار ہیں