ففتھ جنریشن وار فیئر تحریر: آصف گوہر

ارشاد باری تعالی ہے ۔۔۔
"اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ.”
موجود دور کو اگر معلومات کا دور کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ہمیں ہروقت اور ہر ذرائع سے مختلف اقسام کی معلومات حاصل ہوتی رہتی ہے بہت ساری معلومات غیر متعلقہ اور بے معنی ہوتیں ہیں ہمارا ذہن مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات پر فوری ردعمل اس کے بارے میں اپنی رائے قائم کرتا ہے اور پھر اس پر ڈت جاتا ہے ۔
معلومات کے اس سیلاب میں پروپیگنڈے کا بہت عمل دخل ہے حتی کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی مصنوعات کے بارے میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی مدد سے اتنا واویلا کرتا ہے کہ ہم ان کے دعوی پر یقین پختہ کرلیتے ہیں اور حسب ضرورت اسی کمپنی کی مصنوعات کا انتخاب کرتے ہیں ۔
معلومات کے ذریعے لوگوں کے اذہان کو تبدیل کرنا نئے تصورات بارے پبلک کی رائے بنانا یہ پروپیگنڈا ہے اور اس کو ماہرین نے ففتھ جنریشن وار فیئر کا نام دیا ہے ۔
اور میڈیا اس جنگ کا سب سے بڑا اور اہم ہتھیار ہے۔
ماضی قریب میں امریکہ نے ففتھ جنریشن وار فیئر کا استعمال عراق اور افغانستان کے خلاف بڑے منظم انداز میں کیا۔ایک دعوی کیا گیا کہ عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی مچانے والے ہتھیاروں ذخیرہ ہے جس سے دنیا کو خطرہ لاحق ہے ۔اس دعوے کو تقویت بخشنے کے لئے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا بھرپور استعمال کیا گیا دنیا کی ہر زبان میں لکھنے والوں کو خریدا گیا امریکی پروپیگنڈے پر کالم لکھوائے گئے ٹی وی اینکرز کی خدمات لی گئ پروگرام اور مباحثوں کا اہتمام کیا گیا اور ساری دنیا کی رائے بنا دی گئ کہ واقعی صدام حسین کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی مچانے والے ہتھیار ہیں جو دنیا کے لئے خطرہ ہیں جس کے لئے عراق پر حملہ ناگزیر ہوچکا ہے اور یوں اس پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے عراق پر حملہ کرنے کا امریکہ کو اجازت نامہ دے دیا۔
یہی ففتھ جنریشن وار فیئر کا ہتھیار سی آئی اے نے افغانستان میں ملاعمر کی حکومت کے خلاف استعمال کیا ایران اور لبیا کے ایٹمی پروگرامز کے بارے میں بھی کیا گیا ۔
یہ ففتھ جنریشن وار ہی تھی جس کی مدد سے مصر تیونس شام سوڈان اور یمن میں عرب سپرنگ لہر کے نام پر حکومتوں کو ہلا کر رکھ دیا گیا۔ پاکستان کے خلاف گزشتہ چند دہائیوں اس پروپیگینڈے کے ہتھیار کو کثیر الجہتی محاذوں پر استعمال کیا گیا اور کیا جا رہا ہے جس میں بھارت امریکہ اور دیگر ممالک کھلے طور پر ملوث رہے ہیں ۔
بھارت نے افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں شدت پسندوں کو کرائے پر لیا انکی فنڈنگ کی ان سے تخریبی کارروائیوں کے ذریعے ہزاروں پاکستانیوں کو شہید کروایا گیا ان کی پروجیکشن کی گئ سوات میں خاتون کو کوڑے مارنے کی جعلی ویڈیو بنوا کر وائرل کروائی گئ اور یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ سوات کے شدت پسند اسلام آباد پر قبضہ کرنے والے ہیں پھر جب پاکستانی فوج نے سوات میں آپریشن کیا تو بھارت نے اپنے انہیں وظیفہ خوروں کو افغانستان میں پناہ دی
جب عوام اور افواج پاکستان نے بےپناہ قربانیوں کے بعد دھشت گردوں اور شدت پسندوں کا خاتمہ کیا تو ساتھ ہی پشتون تحفظ تحریک کے نام سے ایک نیا پیڈ گروہ میدان میں اتارا گیا سیاسی جماعتوں اور میڈیا میں اپنے راتب خوروں کے ذریعے ان کے حق میں رائے ہموار کی گئ۔
پاکستانی افواج اور عوام میں دوری پیدا کرنے کے لیے پاکستانی میڈیا انڈسٹری کے لوگوں کا استعمال کیا گیا فوج کے خلاف پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر کالم پروگرام اور سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے کرکے پبلک کی رائے سازی کی گئ جس سے خونی لبرلز کا ایک ایسا طبقہ وجود میں آگیا جو نہ صرف دفاعی اداروں پر کھلے عام تنقید کرتا ہے بلکہ اسلام نظریہ پاکستان اور پاکستانی خاندانی اور سماجی نظام کے خلاف بھی علم بغاوت بلند کئے ہوئے ہیں ۔
خواتین کی آزادی اور حقوق کے نام پر میرا جسم میری مرضی والوں کو تھپکی دے کر پاکستانی مضبوط خاندانی اور سماجی نظام پر وار کیا گیا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی جیسے گھناونے اور سنگین جرم کی ایک خبر کے ذریعے پورے پاکستان میں چند گھنٹوں کے اندر اندر خانہ جنگی جیسی صورتحال میں دھکیل دیا جاتا ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ اس شدید پروپیگنڈے کے بارے ہمارا طرز عمل کیا ہونا چاہیے؟ ہمیں کسی بھی خبر اور تجزیہ کو سن اور پڑھ کر فوری رائے قائم کرنے کی بجائے قرآنی حکم کے مطابق طرز عمل اختیار کرنا چاہیے خبر اور معلومات کی تحقیق کریں بیان کرنے والے کی شخصیت اور معلوماتی مواد کے سیاق و سباق کا جائزہ لیں ففتھ جنریشن وار فیئر
اور بیانیہ کی اس جنگ میں محتاط رویہ اختیار کریں۔ @Educarepak

Comments are closed.