مشرق وسطیٰ کے 16 ہزار رضا کار یوکرین میں روسی فوج کا ساتھ دینے کیلئے تیار:امریکہ کا انکار

ماسکو : مشرق وسطیٰ کے 16 ہزار رضا کار یوکرین میں روسی فوج کا ساتھ دینے کیلئے تیار،روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ وہ غیر ملکی رضاکار جو یوکرین میں روسی فوج کے ساتھ مل کر لڑنے کے خواہش مند ہیں انہیں اس کی اجازت دی جائے گی اور ہر ممکن مدد فراہم کی جائے گی۔

روس کی سکیورٹی کونسل کی میٹنگ ہوئی جس میں یوکرین سے جنگ اور دیگر معاملات پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں روسی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے 16 ہزار رضاکار روس فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کو تیار ہیں۔

ملکہ برطانیہ کے محافظ دستے میں شامل اہلکار روس کیخلاف لڑنے کیلئے یوکرین چلا گیااجلاس میں روسی صدر نے کہا ہے کہ غیرملکی رضا کاروں کو روس کیلئے لڑنے کی اجازت دی جائے گی۔

اس حوالے سے امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یوکرین کے خلاف لڑنے کیلئے تیار رضاکاروں میں شام سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں جنہیں شہری علاقوں میں لڑائی کا تجربہ ہے۔

دوسری جانب روسی صدارتی محل کا کہنا ہے کہ شام اور مشرق وسطیٰ کے جنگجوؤں کویوکرین میں روس کیلئے لڑنے کی اجازت دی جائے گی۔

صدارتی محل کا کہنا ہے کہ یوکرین میں لڑنے کی خواہش کرنے والوں میں زیادہ ترمشرق وسطیٰ اور شامی شہری ہیں۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل آج جمہ 11 مارچ کو روس کے ان الزامات پر غور و خوض کر رہی ہے جن میں کہا گیا کہ ماسکو کو یوکرین میں ’’امریکی حیاتیاتی ہتھیاروں سے جڑی سرگرمیوں‘‘ کے نشانات ملے ہیں۔

روس کی طرف سے عائد کردہ ان الزامات کی سختی سے تردید یوکرائنی صدر وولادیمیر زیلنسکی کی طرف سے بھی کی گئی ہے اور امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی طرف سے بھی۔

امریکا نے ان دعووں کو مسترد کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہروس ممکنہ طور پر یوکرین کے خلاف حیاتیاتی یا کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے لیے میدان تیار کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکی مشن کی ترجمان اولیویا ڈالٹن کے مطابق،

”یہ اسی طرح کی من گھڑت کوشش ہے جس کے بارے میں ہم نے پہلے ہی خبردار کیا تھا۔ روس اسے کسی حیاتیاتی یا کیمیائی حملے کے جواز کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکا روس کو سلامتی کونسل کے ذریعے جھوٹ کے پھیلاؤ کی اجازت نہیں دے گا۔

یوکرینی صدر وولادیمیر زیلنسکی نے روسی الزام کو رد کرتے ہوئے کہا کہ یہ الزام بذات خود ایک بری علامت ہے۔ روس کی طرف سے سلامتی کونسل کا خصوصی اجلاس بلانے کی درخواست کا اعلان ایک ٹوئیٹ کے ذریعے کیا گیا جو اقوام متحدہ میں روس کے نائب سفیر اول دیمتری پولیانسکی کی طرف سے جاری کی گئی۔ جس میں کہا گیا کہ یوکرین امریکی مدد کے ساتھ ملک میں کیمیائی اور حیاتیاتی لیبارٹریاں چلا رہا ہے۔

اقوام متحدہ میں روس کے ایک اور نائب سفیر نے بدھ کے روز ان الزامات کو دہرایا تھا اور مغربی میڈیا پر زور دیا تھا کہ یوکرین میں موجود خفیہ حیاتیاتی لیباٹریوں کے بارے میں رپورٹ کرے۔

بعد ازاں روسی وزارت دفاع کی طرف سے جاری کردہ ٹوئیٹ میں ”یوکرینی سرزمین پر امریکا کی ملٹری بائیولوجیکل سرگرمیوں سے متعلق تجزیاتی دستاویزات‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس معاملے کا جائزہ لے۔

یوکرینی صدر وولادیمیر زیلنسکی نے روسی الزام کو رد کرتے ہوئے کہا کہ یہ الزام بذات خود ایک بری علامت ہے: ”اس سے مجھے بہت زیادہ پریشانی ہوئی ہے کیونکہ ہم اکثر اس بات کے قائل رہے ہیں کہ اگر آپ روس کے منصوبوں کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو وہ وہی ہوں گے جس کا الزام روس دوسروں پر لگائے۔‘‘

جمعرات کو اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے زیلنسکی کا مزید کہنا تھا، ”میں ایک ذی شعور شخص ہوں، ایک ذی شعور ملک اور لوگوں کا صدر ہوں۔ میں دو بچوں کا باپ ہوں۔۔۔ اور میری سر زمین پر کیمیائی یا بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والا کوئی بھی ہتھیار تیار نہیں کیا گیا ہے۔ پوری دنیا یہ جانتی ہے۔‘‘

اقوام متحدہ کی طرف سے جمعرات 10 مارچ کی شام اعلان کیا گیا کہ روسی درخواست پر یہ ملاقات مقامی وقت کے مطابق دن دس بجے منعقد کی جائے گی تاہم بعد میں ایک گھنٹہ تاخیر سے شروع ہونے کا اعلان کیا گیا۔

اقوم متحدہ کے تخفیف اسلحہ سے متعلق معاملات کے سربراہ ایزومی ناکامیتسو اور سیاسی معاملات کی سربراہ روزمیری ڈی کارلو سلامتی کونسل کو اس حوالے سے بریفنگ دیں گی۔

Comments are closed.