19 فروری کو وفات پانے والی چند مشہور شخصیات
19 فروری کو وفات پانے والی چند مشہور شخصیات
1165ء ابو الحسن ہبہ بن الغنائم بمعروف ابن التلمیذ ، عراقی طبیب، شاعر، موسیقار، ادیب، خطاط، مصنف بمقام بغداد (پیدائش : 1073ء)
1652ء ملا محمود جونپوری ، ہندوستان کے مشہور فلسفی اور ماہر فلکیات (پیدائش: 1585ء)
1895ء منشی نول کشور ، برطانوی ہندوستان کے نامور شہرت یافتہ ناشر کتب (پیدائش: 3 جنوری 1836ء)
1951ء آندرے ژید ، نوبل انعام برائے ادب (1947ء) یافتہ فرانسیسی ناول نگار، مقالہ نگار، ڈراما نگار، مترجم اور آزادی خیالی کی تحریک کا مؤید ، کئی بار افریقا کا سفر کیا اور فرانس کی نو آبادیوں کی حالت زار کا نقشہ کھینچا۔ رابندرناتھ ٹیگور کی گیتانجلی اور شیکسپیئر کے ہیملٹ اور اینٹنی اور قلوپطرہ کا فرانسیسی میں ترجمہ کیا۔ (پیدائش: 22 نومبر 1869ء)
1952ء نٹ ہمسن ، نوبل انعام برائے ادب (1920ء) یافتہ ناروے کے ناول نگار، شاعر، ڈراما نگار (پیدائش: 4 اگست 1859ء)
1968ء محمد ہاشم گذدر (1895ء—1966ء) پاکستان کے ممتاز سیاست دان، سماجی کارکن (6 مئی 1941ء تا 8 مئی 1942ء) 9ویں میئر کراچی ، (28 مارچ 1953ء تا 24 اکتوبر 1954ء) دوسرے نائب صدر (ڈپٹی سپیکر) قومی اسمبلی پاکستان (پیدائش: 1 فروری 1893ء)
1988ء انڈری فریڈرک کونینڈ ، نوبل انعام برائے فزیالوجی و طِب (1956ء) یافتہ فرانسیسی نژاد امریکی معالج و ماہرِ نفسیات (پیدائش: 24 ستمبر 1895ء)
1997ء دنگ شاوپنگ ، چینی کمیونسٹ رہنما ، جنوری 1975ء تا مارچ 1980ء) چیف آف جنرل سٹاف پیپلز لبریشن آرمی ، (22 جون 1981ء تا 19 مارچ 1990ء) چیئرمین سینٹرل ملٹری کمیشن (پیدائش : 22 اگست 1904ء)
1999ء محمد حیدر خان بمعروف خمار بارہ بنکوی ، ہندوستانی شاعر (پیدائش: 19 ستمبر 1919ء)
2009ء نرملاما، بھارتی اداکارہ بمقام حیدر آباد دکن (1920ء)
2012ء ریناٹو ڈلبیکو ، نوبل انعام برائے فزیالوجی اور طب (1975ء) یافتہ اطالوی نژاد امریکی ماہر حیاتیات (پیدائش : 22 فروری 1914ء)
2013ء رابڑت کول مین رچرڈسن ، نوبل انعام برائے طبیعیات (1988ء) یافتہ امریکی ماہر طبیعیات و استاد جامعہ ، یہ انعام انہیں ان کے ہم وطن طبیعیات دان ڈیوڈ لی اور ڈوگلاس اوشروف کے ہمراہ ہیلیم -3 میں سوپر فلوڈیٹی کی دریافت پر دی گیا۔ (پیدائش : 26 جون 1937ء)
2014ء جینی سس کارمونا، وینز ویلا کی ماڈل جسے سر میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ (پیدائش : 20 ستمبر 1991ء)
1996ء۔۔صہبا اختر ٭ اردو کے ممتاز شاعر صہبا اختر کا اصل نام اختر علی رحمت تھا اور وہ 30 ستمبر 1931ء کو جموں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی رحمت علی، آغا حشر کاشمیری کے ہم عصر تھے اور اپنے زمانے کے ممتاز ڈرامہ نگاروں میں شمار ہوتے تھے۔ صہبا اختر نے بریلی سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا مگر اسی دوران پاکستان کا قیام عمل میں آگیا اور انہیں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان آنا پڑا۔ پاکستان آنے کے بعد صہبا اختر نے بہت نامساعد حالات میں زندگی بسر کی پھر انہوں نے محکمہ خوراک میں ملازمت اختیار کی اور اسی ادارے سے ریٹائر ہوئے۔ صہبا اختر کو شعر و سخن کا ذوق زمانہ طالب علمی سے ہی تھا۔ وہ ایک زود گو شاعر تھے۔ انہوں نے نظم، قطعہ، گیت ، ملی نغمے، دوہے اور غزل ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی۔ ان کے مجموعہ ہائے کلام میں سرکشیدہ، اقرا، سمندر اور مشعل کے نام شامل ہیں۔ حکومت پاکستان نے انہیں ان کی وفات کے بعد صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ ٭19 فروری 1996ء کو صہبا اختر کراچی میں وفات پاگئے اور گلشن اقبال کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔
1998ء۔۔آغا طالش * پاکستان کے نامور فلمی اداکار آغا طالش کا اصل نام آغا علی عباس قزلباش تھا اور وہ 10 نومبر 1923ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے قیام پاکستان سے پہلے بمبئی میں بننے والی فلم سرائے سے باہر سے اپنی فلمی زندگی کا آغاز کیا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پہلے ریڈیو پاکستان پشاور سے منسلک ہوئے اور پھرفلمی دنیا سے وابستہ ہوگئے۔ پاکستان میں ان کی مشہور فلموں میں نتھ، جھیل کنارے، دربار حبیب، سات لاکھ، باغی، شہید، سہیلی ،فرنگی، زرقا، وطن، نیند، کنیز، لاکھوں میں ایک، زینت، امرائو جان ادا اور آخری مجرا کے نام سرفہرست ہیں۔ انہوں نے 7 فلموں میں نگار ایوارڈ حاصل کیا تھا۔ 19 فروری 1998ء کو آغا طالش وفات پاگئے۔ وہ کریم بلاک علامہ اقبال ٹائون لاہور کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
19 فروری 1275ء مطابق 21 شعبان 673ھ سندھ کے مشہور صوفی بزرگ حضرت لعل شہباز قلندر کی تاریخ وفات ہے۔ حضرت لعل شہباز قلندر کا اصل نام سید محمد عثمان مروندی تھا اور آپ کا سلسلہ نسب گیارہ واسطوں سے حضرت امام جعفر صادقؑ سے ملتا ہے۔آپ 1177ء مطابق 573ھ میں مروند کے مقام پر پیدا ہوئے۔ آپ نےظاہری اور باطنی علوم کی تحصیل اپنے والد بزرگوار حضرت ابراہیم کبیرالدین سے کی۔ قرآن مجید حفظ کرنے کے بعد آپ نے ہندوستان بھر کی سیاحت کی اور مختلف اولیائے کرام کی صحبت سے مستفید ہوئے جن میں شیخ فرید الدین گنج شکرؒ، حضرت بہائو الدین زکریا ملتانیؒ، شیخ بوعلی قلندرؒ اور مخدوم جہانیاں جلال الدین بخاریؒ کے نام سرفہرست ہیں۔ پھر آپ نے مستقل سکونت کے لیے سہون شریف کے مقام کو منتخب کیا اور وہاں رشد و ہدایت کا سلسلہ شروع کیا۔ آپ نے 19 فروری 1275ء مطابق 21 شعبان 673 ھ کو سہون میں وفات پائی،جہاں آپ کا مزار مبارک آج بھی مرجع خلائق ہے۔