2021 کی سب سے بڑی خبر، محمد بن سلمان اور ایران، خیالات بدل گئے، اہم انکشافات، مبشر لقمان کی زبانی

2021 کی سب سے بڑی خبر، محمد بن سلمان اور ایران، خیالات بدل گئے، اہم انکشافات، مبشر لقمان کی زبانی
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ محمد بن سلمان نے ایک دھماکہ خیز انٹرویو دیا ہے جس میں انہوں نے ایران سے صلح کا اشارہ دے دیا ہے۔ یہ خواب ہے یا حقیقت اور یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے اس پر ہم تفصیل سے بات کریں گے لیکن آپ کو چند اہم خبروں سے آگاہ کر دوں کہامریکہ نے افغانستان میں اپنے غیر ضروری اسٹاف کو فوری طور پر کابل ایمبیسی چھوڑنے کا حکم دے دیا ہے۔ یہ حکم نامہ بائیڈن کے ستمبر میں افغانستان چھوڑنے کے اعلان کے بعد سامنے آ یا ہے۔ ابھی تک افغانستان میں ڈھائی ہزار امریکی فوجی ہیں جبکہ نیٹو نے بھی امریکہ کے ساتھ افغانستان چھوڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ جبکہ اس صورتحال میں افغانستان میں بڑے پیمانے پر خانہ جنگی کی توقع کی جا رہی ہے۔امریکہ، برطانیہ اور نیٹو کی افواج رواں سال گرمیوں میں افغانستان سے نکل رہی ہیں۔برطانوی چیف آف ڈیفینس سٹاف نے حال ہی میں کہا تھا کہ یہ وہ نتیجہ تو نہیں جس کی ہمیں امید تھی۔فغانستان میں صورتحال کے غیر یقینی کروٹ لینے سے یہ حقیقی خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ 20 برس میں دہشت گردی کے خلاف بھاری قیمت ادا کر کے جو کچھ حاصل کیا گیا ہے وہ بالکل بے کار چلا جائے گا۔ طالبان ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جا رہے ہیں اور القاعدہ اور نام نہاد دولت اسلامیہ نامی تنظیم کے حملے بڑھتے جا رہے ہیں۔ اب جب کہ مغرب کے فوجی وسائل افغانستان میں دستیاب نہیں ہوں گے تو دہشت گرد عناصر کا افغانستان میں سدباب کیسے ممکن بنایا جائے گا؟یہ وہ سوچ ہے جو پاکستان کے فیصلہ سازوں کی نیندیں حرام کیئے ہوئے ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اب اس بات کا چرچہ شروع ہو گیا ہے کہ پاکستان اب اپنا مشرقی بارڈر بھارت کے ساتھ محفوظ بنا کر مغربی سرحدوں پر زیادہ توجہ دے گا، اور ان دہشت گرد تنظیموں کے جھتے کو پاکستان سے دور رکھنے کی کوشش کر ے گا۔

دوسری طرف سری لنکا کی کابینہ نے سرے عام برقعہ پہننےپر پابندی لگا دی ہے، کوئی بھی پبلک مقامات پر اپنے منعہ کو کپڑے سے نہیں ڈھانپ سکتا چاہے وہ مسلمانوں کا برقعہ ہی کیوں نہ ہو۔ سر لنکا کی کا بینہ نے اسے نیشنل سیکیورٹی کنسرن قرار دیتے ہوئے پابندی لگائی ہے جبکہ یہ انٹرنیشنل قوانین کی خلاف ورزی ہے اس سے پہلے ہم نے دیکھا تھا کہ سر ی لنکا مسلمانوں کو دفنانے کی بجائے انہیں زبردستی جلانے پر بضد ہے اور یہ سلسلہ کافی عرصہ سے جاری ہے۔ ہم سری لنکا کو بھارت سے دور کرنے اور چین کے قریب کرنے کے چکر میں بہت سے ہیومن رائٹس پر آنکھیں بند کیئے ہوئے ہیں لیکن کسی بھی مسلمان کو اس کی مذہبی آزادی سے محروم کرنا کسی صورت قابل قبول نہیں۔ اس حوالے سے ہمیں آواز اٹھانی چاہیے۔جبکہ سب سے بڑی خبر یہ ہے کہسعودی عرب کے ولی محمد بن سلمان نے اپنے دیرینہ دشمن ایران کے لیئے ایک صلح پسند رویہ اختیار کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ جس میں ان
کا کہنا ہے کہ ایران ہمارا ہمسائیہ ملک ہے اور ہم تہران کے ساتھ اچھے اور خاص تعلقات چاہتے ہیں۔ اور یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب ایران اور سعودی عرب کے درمیان عراق میں خفیہ بات چیت کی خبریں سامنے آ ئی ہیں
دونوں ممالک مشرق وسطہ میں بڑے جارحانہ طریقے سے ایک دوسرے کے خلاف کام کر رہے ہیں اور ایران کے حوالے سے سعودی ولی عہد کا لہجہ پہلی مرتبہ نرم ہوا ہے۔ماضی میں محمد بن سلمان ایران اور ایرانی لیڈرز کے لیئے بڑی سخت زبان استعمال کر چکے ہیں۔ اور دونوں ممالک ایک دوسرے سے خطے میں بالا دستی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ دوہزار سولہ میں شیعہ رہنما شیخ نمر کی پانسی کے بعد ایران میں سعودی ایمبیسی پر حملے کے بعد دونوں ممالک میں تعلقات بہت زیادہ کشیدہ ہو گئے تھے۔

محمد بن سلمان نے یہ انٹرویو ایک ٹی وی کو دیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ ایران کے حالات خراب ہوں ، بلکہ اس کے برعکس ہم چاہتے ہیں کہ ایران میں ترقی ہو اور پورا خطہ اور دنیا ترقی اور Prosperity
کی جانب گامزن ہو۔تہران کے جوہری، میزائل پروگرام اور خطے میں مختلف پراکسیوں کی حمایت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سعودی ولی عہد کا کہنا تھا کہ ’ہمارا مسئلہ ایران کا منفی رویہ ہے سعودی عرب علاقائی اور عالمی شراکت داروں کے ساتھ مل کر تہران کےمنفی رویے کا حل تلاش کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ہمیں امید ہے کہ ہم ان مسائل کا حل نکال لیں گے اور ایران کے ساتھ اچھے اور مثبت تعلقات استوار کریں گے جس سے تمام فریقین کو فائدہ ہو گاجیسا میں نے بتایا کہ اس سے پہلے محمد بن سلمان سے جب بھی ایران کا ذکر کیا جاتا تھا تو جواب میں محمد بن سلمان کا لہجہ بہت سخت رہا اور وہ تہران پر خطے میں عدم تحفظ بڑھانے کا الزام عائد کرتے آئے ہیں۔لیکن آپ دیکھیں کہ ایک طرف امریکہ مشرق وسطہ سے نکل رہا ہے دوسری طرف پاکستان بھارت سے صلح کر رہا ہے اور اب تو انتہا ہی ہو گئی ہے کہ سعودی عرب ایران سے صلح کی باتیں کر رہا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ امریکہ کی ترجیحات کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کی ترجیحات تبدیل ہو رہی ہیں۔ سعودی عرب کو اپنی حفاظت خود کرنے اور اپنے معاملات ٹھیک کرنے کا پیغام دے دیا گیا ہے۔ جبکہ پاکستان بھی امریکہ کے افغانستان سے نکلنے پر پریشان ہے اور اپنے دشمنوں میں کمی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کسی نئے میدان جنگ کی دنیا تیاری کر رہئ ہے اور پرانی روشوں کو مٹا رہی ہے۔سعودی اور ایرانی عہدیداروں نے کشیدگی کو کم کرنے کے لیےعراقی وزیراعظم کی مدد سے اسی ماہ عراق میں براہ راست مزاکرات کیئے ہیں۔ جس میں یمن میں جاری جنگ، امریکہ سے جوہری معاہدے پر مزاکرات سمیت دیگر چیزیں زیر غور آئی۔ محمد بن سلمان نے امریکہ سے تعلقات کے حوالے سے واضح کیا ہے کہ سعودی عرب اپنے اندرونی معاملات میں کسی دباؤ یا مداخلت کو قبول نہیں کرے گا۔ جبکہ بائیڈن انتظامیہ سے جن معاملات پر اختلاف ہے اس کو حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

یمن کے تنازع کو سعودی عرب اور ایران کے مابین ایک ’پراکسی وار‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو اس خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی جنگ ہےیمن کے حوالے سے شہزادہ محمد بن سلمان کا کہنا ہے کہ کوئی ریاست اپنی سرحدوں پر مسلح ملیشیا کا وجود برداشت نہیں کر سکتی اس کے ساتھ ساتھ وہ حوثی باغیوں سے نہ صرف مزاکرات پر زور دے رہے ہیں جبکہ انہیں مزاکرات کی آفر بھی کی گئی ہے جس کا ابھی تک حوثی باغیوں نے جواب نہیں دیا ہے۔ اس حوالے سے جب سوال کیا گیا کہ مزاکرات کا فیصلہ بھی تہران نے کرنا ہے یا حوثی باغیون نے تو محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ حوثی یمن سے تعل رکھتے ہیں اور عرب نسل سے ہیں انہیں اپنے ملک کے مفادات کو مقدم رکھنا چاہیے اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان کے تہران کے ساتھ بہت گہرے تعلقات ہیں۔اس وقت دنیا کی سیاست اور ورلڈ آرڈر بڑی تیزی سے بدل رہا ہے اور ان حالات میں ہم توقع کر سکتے ہیں کہ جب امریکہ چین سے اپنی جنگ لڑنے میں مصروف ہے تو اس کے اتحادیوں کے اپنے اپنے خطے میں اپنی سیکیورٹی اور اپنے مسائل کے حل کے لیئے خود نہ صرف سوچنا ہو گا بلکہ اقدامات بھی کرنے پڑیں گے۔ ایران اور سعودی عرب کی اس ڈویلپمنٹ کو اپ اسی کھیل کی ایک کڑی سمجھ سکتے ہیں۔

Comments are closed.