23 مارچ ،وطن سے محبت اور اسلامی ممالک تنظیم او آئی سی
ازقلم غنی محمود قصوری
وطن سے محبت اسلام کا حصہ ہے کیوں کہ اگر وطن پیارا و آزاد ہو گا تو آپ اپنی مذہبی رسومات بآسانی انجام دے سکے گے اور آزادی کی زندگی گزار سکیں گے بصورت دیگر مذہبی رسومات کی ادائیگی کے ساتھ شحضی آزادی بھی چھن جاتی ہے یوں تو محض یہ مملکت خداداد پاکستان ہی ہمارا ملک ہے مگر احادیث رسول کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ ساری زمین ہی اللہ کی ہے اور ہم مسلمان اللہ کے خاص بندے اور اس ساری زمین پر حق ہمارا ہے-
جس کی مثال یہ حدیث ہے
عن النعمان بن بشیرؓ قال: قال رسول اللّٰہ مثل المؤمنین فی توادہم وتراحمہم وتعاطفہم مثل الجسد إذا اشتکی منہ عضوٌ تداعٰی لہٗ سائرُ الجسد بالسہر والحُمّٰی (مسلم)
ترجمہ۔۔باہمی محبت اور رحم وشفقت میں تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں، جب انسان کے کسی عضو میں تکلیف ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے جسم کے تمام اعضاء بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتے ہیں –
اسی طرح جب ایک مسلمان آدمی و ملک کو تکلیف پہنچے تو تمام امت کو اس کا درد محسوس ہوتا ہے اور اس درد کو رفع کرنا اپنی بساط کے مطابق ہر ایک شحض و ملک پر فرض ہے-
اسلام میں ذمیوں، کافروں کے حقوق بھی احادیث سے ثابت ہیں تاکہ وہ بھی عزت و احترام سے رہ سکیں اور اپنی مذہبی آزادی کے ساتھ شحضی آزادی بھی برقرار رکھ سکیں مگر افسوس کہ آج کافر ہم امت مسلمہ پر ہاوی ہیں اور ہم پستی کی زندگیاں گزار رہے ہیں-
نبی کریم کی اپنے وطن سے محبت کا اندازہ ان احادیث سے لگایا جا سکتا ہے-
ما أطيبَكِ مِن بلدةٍ وأحَبَّك إليَّ، ولولا أنَّ قومي أخرَجوني منكِ ما سكَنْتُ غيرَكِ. (صحيح ابن حبان عن عبد الله بن عباس، الصفحة أو الرقم: 3709)
ترجمہ۔۔۔ ہجرت کے موقع پر مکہ کو مخاطب کرکے آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اے مکہ تو کتنا پاکیزہ اور میرا محبوب شہر ہے، اگر میری قوم مجھے نہ نکالتی میں کہیں اور نہ رہتا-
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ
اللَّهمَّ حبِّبْ إلينا المدينةَ كما حبَّبْتَ إلينا مكَّةَ وأشَد. اللَّهمَّ بارِكْ لنا في صاعِها ومُدِّها وانقُلْ وباءَها إلى مَهْيَعةَ. (وهي الجُحفةُ). (صحيح ابن حبان عن عائشة، الصفحة أو الرقم: 5600)
ترجمہ ۔۔ہجرت کے بعد آپ علیہ السلام نے مدینہ منورہ کے لئے دعا فرمائی کہ اے اللہ مدینہ کی محبت ہمارے دل میں مکہ کی محبت سے زیادہ فرما دے-
ان احادیث سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے وطن سے محبت کی بڑی عمدہ مثال ملتی ہے نیز ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اپنے وطن کی توقیر و سلامتی کیلئے ہجرت کی جا سکتی ہے اور کفار کے غلبہ پر ان کا قبضہ ختم کروانے کیلئے جہاد لازمی ہے جیسا کہ نبی ذیشان صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کو چھوڑا مدینہ میں سکونت اختیار کی ایک مضبوط جماعت بنائی اور کفار سے ٹکرا کر اپنے وطن کو فتح کیا انہیں احادیث کو دیکھتے ہوئے ٹیپو سلطان رحمتہ اللہ علیہ نے 1857 کی جنگ آزادی لڑی تھی اور اسی جذبے کے تحت علامہ اقبال و محمد علی جناح نے آزادی کی یلغار بلند کی تھی اور دو قومی نظریہ پیش کیا تھا
آج 23 مارچ کا دن ہے 1940 کو محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے جو خواب دیکھا تھا ان کے رحلت کے بعد قائد و رفقاء نے اسے 23 مارچ 1940 کو لاہور کے منٹو پارک میں دنیا کے سامنے رکھا اور خوب جدوجہد کی اور أخرکار 14 اگست 1947 کو کم و بیش 16 لاکھ قربانیاں اور لاکھوں ماؤں بہنوں کی عزتوں کی قربانیوں کے بعد یہ ملک ہمیں ملا اور آج اس کی تقریباً چوتھی نسل پروان چڑھ رہی ہےان شاءاللہ یہ وطن تاقیامت رہے گا مگر سارا عالم کفر اس کو توڑنے کے درپے ہے-
جہاں پاکستان کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں وہیں پوری دنیا کے مسلمان ممالک کے خلاف بھی سارا عالم کفر اکھٹا ہے اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے 21 اگست 1969 کو مسجد اقصیٰ پر یہودی حملےکے بعد مراکش کے شہررباط میں او آئی سی نامی اسلامی ممالک کی مشترکہ تنظیم کی بنیاد رکھی گئی تھی-
اس اورگنائزیشن اسلامک کوپریشن ( او آئی سی) 25 ستمبر 1969 کی کانفرنس کو کامیاب کروانے میں پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم ،سعودی عرب کے شاہ فیصل مرحوم نے کلیدی کردار ادا کیا تھا-
1974 میں لاہور میں ہونے والی او آئی سی کانفرنس میں مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی اور فلسطینی وزیراعظم یاسر عرفات،سعودی عرب کے شاہ فیصل،یوگنڈا سے عیدی امین،تیونس سے بومدین،لیبیا سے معمر قذافی مصر سے انور سادات ،شام سے حافظ الاسد ،بنگلہ دیش سے شیخ مجیب الرحمن ،ترکی سے کورو فخری سمیت دیگر اسلامی ممالک کے وفد نے شرکت کی تھی-
اب ایک بار پھر مملکت پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں 57 اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے 44 رکن ممالک کے وزرائے خارجہ اور کچھ کے دیگر اعلی عہدیداران موجود ہیں جن کی میزبانی پاکستان کر رہا ہے اور یہ ایک بہت بڑے اعزاز کی بات ہے
ان شاءاللہ اس کانفرنس میں 23 مارچ 1940 کی طرز پر پیش کئے گئے دو قومی نظریہ کی طرح امت مسلمہ کیلئے نظریات پیش کئے جائینگے جس کیلئے ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی امت مسلمہ کی اس تنظیم سے زیادہ سے زیادہ امت مسلمہ کی بقاء و سلامتی کا کام لے
آمین







