27 اکتوبر-یوم سیاہ: مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری! تحریر: محمد اختر

0
42

قارئین کرام!   27اکتوبر 1947، حالیہ صدی میں انسانی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے،اس دن بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تاریخ رقم کر دی یہ وہ دن ہے جب بھارت نے سری نگر میں اپنی افواج اتاری تھیں۔ایک طرف بھارتی قابض افواج نے کشمیری آزادی کے جنگجوؤں سے لڑ کر انہیں دریائے جہلم کے دوسری طرف دھکیل دیا اور دوسری طرف اس نے مقامی آبادی پر مظالم کے پہاڑ ڈھا دیے۔اسی دوران، جب مہاراجہ ہری سنگھ جموں گئے تو وہاں مسلمانوں کا ایک وفد انکے پاس شکایت لے کر آیا کہ مقامی سکھ اور ہندو آبادی مسلمانوں پر مظالم ڈھارہی ہے۔ مہاراجہ نے شکایتوں کو دور کرنے کے بجائے مسلم وفد کو ہی قتل کرنے کا حکم دے دیا۔ واضح رہے، اس حکم کے اجراء سے قبل کشمیر سے ملحق ہندوستان کی سکھ ریاستوں سے بڑی تعداد میں سکھ فوجیوں کو کشمیر بلایا گیا تھا، جنہوں نے خاص طور پر جموں کی مسلم آبادی کا بے رحمانہ قتل عام کیا۔ کشمیری مسلمانوں پر مظالم کے سلسلے میں، 1947 میں پاکستان کے الحاق کے لیے کشمیریوں کی جدوجہد کے دوران، پورے کشمیر میں پانچ لاکھ سے زائد افراد شہید ہوئے۔تاہم، یہ بہت ہی بدقسمتی کی بات ہے، جدید دور میں بھی یہ صورتحال تبدیل نہیں ہوئی۔ آج مقبوضہ جموں و کشمیر ظلم کا ایک خوفناک منظر بن گیا ہے، جہاں بھارتی افواج کی 14، 15، 16 بٹالین تعینات ہیں جن کی کل تعداد 9.5 لاکھ سے زائد ہے، جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں۔اس تعداد کا مطلب ہے کہ ہر 10 کشمیریوں کے لیے اوسطا ایک فوجی تعینات ہے۔ قار ئین کرام،یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مقبوضہ وادی اس وقت دنیا کا سب سے زیادہ عسکری زدہ خطہ ہے اور قابض افواج ظلم اور بربریت کی ایسی داستان رقم کر رہی ہیں کہ وادی میں مٹی کا کوئی ٹکڑا ایسا نہیں جس میں  شہیدوں کا خون شامل نہ ہو۔کوئی دریا ایسا نہیں جس میں کشمیری مسلمانوں کا خون نہ بہتا ہو، وادی میں کوئی گھر ایسا نہیں جس میں کوئی مسلمان شہید نہ ہوا ہو اور کوئی شخص ایسا زندہ نہیں جسے قابض افواج نے تشدد کا نشانہ نہ بنایا ہو۔ ان مظالم کے علاوہ بھارت نے کئی کالے قانون نافذِعمل کئے ہوئے ہیں جس کے ذریعے وہ کشمیریوں کی آزادی جدوجہد کو کچلنا چاہتا ہے، جیساکہ، آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ، 1958 کے تحت، سیکورٹی فورسز کو مظاہرین کو کچلنے اور تحریک آزادی کو دبانے کے لیے اپنے اختیار میں کسی بھی طریقے کو استعمال کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔ ایسا کرتے ہوئے، ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی، چاہے ان کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کتنی ہی وسیع ہو۔ یہ قانون 1990 میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں نافذ کیا گیا تھا، جب کشمیریوں کی مسلح تحریک عروج پر پہنچ چکی تھی اور مرکزی حکومت کے پاس ان کو کچلنے کا کوئی حربہ نہیں تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح ایکٹ کے نفاذ پر بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں، اقوام متحدہ وغیرہ کی جانب سے حسبِ معمول رسمی طور پر شدید تنقید کی گئی، کیونکہ اس نے فوجی افسران کو اپنے مشن کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے ہر طرح کی سرگرمیاں کرنے کا براہ راست اختیار دیا تاکہ مرکزی حکومتی احکامات اور حکمت عملی کو عملی جامہ پہنایا جائے اور  وہ ہر قسم کی قانونی کارروائی سے محفوظ رہے۔اس قانون کا انتہائی خطرناک استعمال 23 فروری 1991 کو کیا گیا، جب بھارتی فوج نے کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے دو گاؤں کنان اور پوش پورہ میں رات کی تاریکی میں ایک رات کے سرچ آپریشن کے دوران مختلف عمر کی 100 سے زائد خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔قارئین کرام، جب میں کنان اور پوش پورہ کے واقعے کے بارے میں مطالعہ کر رہا تھا تومجھے معلوم ہوا کہ ہیومن رائٹس واچ اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق یہ تعداد 150 کے قریب تھی۔اس ضمن میں، ان تنظیموں کے دباؤ کے تحت، دہلی حکومت نے اس واقعے کی تحقیقات کی، لیکن ہمیشہ کی طرح، انہوں نے اس پر آنکھ بند رکھی اور اسے بے بنیاد قرار دیا اور ملوث  فوجیوں کو بری کر دیا تھا۔در حقیقت، پچھلے 74 سالوں سے، بھارتی افواج مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہے، اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں کی اطلاع دی ہے، لیکن بھارت ہمیشہ راہِ فرار اختیار کرتا رہا ہے۔ ہر واقعہ کے بعد اس کا جواب یہ رہا ہے کہ یہ صرف ایک من گھڑت کہانی ہے یا پروپیگنڈا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسا موقف اختیار کرتے ہوئے بھارت انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں جیسے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کو بھی مقبوضہ جموں و کشمیر کا دورہ کرنے اور وہاں کی صورتحال کا مشاہدہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔بھارت کا یہ رویہ واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں ظلم کی بہت سی داستان ہیں، بھارت کسی مبصر کو  مقبوضہ جموں و کشمیر جانے کی اجازت نہیں دیتا کہ کہیں وہ واقعات سے پردہ نا اٹھا دے اور اس کے جھوٹے دعوں کی کلی کھل نہ جائے۔ لیکن پھر بھی کشمیری نوجوان سماجی رابطہ کی ویب سائٹ کے ذریعے دنیا کو ان حالات اور واقعات سے آگاہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔تاہم، 5 اگست 2019 کے بعد سے، کرفیو اور لاک ڈاؤن کی آڑ میں مقبوضہ جموں و کشمیرمیں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ انسانوں اور جانوروں کے ساتھ بدسلوکی کی جا رہی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کشمیری صرف کرفیو اور لاک ڈاؤن کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں بلکہ ان کی مانگ یہ بھی ہے کہ ہندوستان غیر قانونی قبضہ مکمل طور پر ختم کرے اور حقِ خود ارادیت کا حق دے تاکہ وہ اپنی مرضی سے مستقبل کا فیصلہ کرسکیں۔ قارئین کرام! میری رائے میں، بھارت کی جانب سے کرفیو، لاک ڈاؤن، جبر اور تشدد جیسی حکمت عملی ہمیشہ مقبوضہ جموں و کشمیرکے لوگوں کو بھگتنا پڑی ہے۔ میں سمجھتا  ہوں کہ اِس طرح کے اقدامات انہیں خوفزدہ نہیں کر سکتے اور انہیں اپنے مطالبات اور مشن کو ترک کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ اگر ایسا ہوتا تو بھارت کو مقبوضہ جموں و کشمیرمیں کرفیو لگانے کی ضرورت نہ پڑتی۔ واضح رہے، اکتوبر 1947 میں ہندوستانی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنے پاکستانی ہم منصب کو ٹیلی گرام بھیجا اور کھلے عام اعلان کیا کہ مسئلہ کشمیر کشمیری عوام کی امنگوں اور خواہشات کے مطابق حل کیا جائے گا اور اس حوالے سے کوئی اور رائے نہیں۔لیکن، اس کے برعکس وقت گزرنے کے ساتھ یہ ثابت ہوتا ہے کہ، یہ محض ایک کھوکھلا بیان تھا۔ اس کے علاوہ، جب بھارت اس مسئلے کو اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر لے گیاتو بھارت نے عالمی برادری سے اس عزم کا اعادہ کیا کہ کشمیری عوام کی امنگوں اور خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں ایک منٹ لگے گا۔ لیکن، ہندوستان کا یہ وعدہ آج تک پورا نہیں ہوا۔اب ایک طرف بھارتی فاشسٹ حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی ہے اور دوسری طرف وہ کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑڈھا رہی ہے۔قارئین کرام! اقوامِ عالم کو یہ سمجھنا ہوگا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی موجودہ صورتحال سے عالمی امن کو شدید خطرہ لاحق ہے۔آزادی ِ جدوجہد کے عظیم رہنما سید علی شاہ گیلانی کی وفات کے بعد سے بھارتی قابض افواج نے کشمیریوں پر مظالم کی ایک نئی لہرکاآغاز کر دیا ہے۔ ہندوستانی قابض افواج انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کر رہی ہیں۔ حال ہی میں، سرچ آپریشن کی آڑ میں، زندگی انتہائی مشکل ہو گئی ہے۔ صرف اکتوبر، 2021 کے مہینے میں اب تک درجنوں کشمیری نوجوانوں کو بھارتی قابض افواج نے جعلی مقابلوں میں شہید کیا ہے۔ قا رئین کرام! یہ بات ہر ایک پرآشنا ہے کہ بھارت افغانستان میں ہزیمت اٹھانے کے بعد منہ چھپانے کے نت نئے طریقے تلاش کر رہا ہے۔ معتبر ذرائع کے مطابق، ہندوتوا نظریے کے تحت بھارتی فاشسٹ حکمران حکومت، ایک بار پھر پاکستان کے خلاف ”فالس فلیگ آپریشن” کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے تاکہ عالمی برادری کی توجہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین صورتحال سے ہٹائی جا سکے۔ آخر میں، بطور ڈویژنل صدر کشمیر یوتھ الائنس میں اقوامِ عالم سے پُر زور مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بڑھتی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کی روک تھام کے لیے عملی اقدام کرے۔چونکہ، عالمی برادری کا فرض ہے کہ وہ ان خلاف ورزیوں کا فوری نوٹس لے اور بھارت کو کشمیریوں کو ان کا پیدائشی حقِ خود ارادیت دینے پر مجبور کرے۔ ورنہ،مسئلہ کشمیر پر آنکھیں بند کرنا اور کھوکھلے بیانات خطے میں سب سے بڑی تباہی کا باعث بنیں گے۔ 

@MAkhter_

Leave a reply