چترال میں لینڈ سیٹلمنٹ کا مسئلہ اور عوام۔
تحریر ؛ شجاعت علی بہادر
گزشتہ کئی دنوں سے میڈیا خصوصاً سوشیل میڈیا میں چترال میں لینڈ سیٹلمنٹ کے حوالے سے گرما گرم بحث جاری ہے۔ قاقلشٹ میں عوام اور ضلعی انتظامیہ کا ایک دوسرے کے آمنے سامنے آنے کے بعد یہ بحث مذید شدت اختیار کر گئی ہے کہ آیا 1975 کے نوٹیفکیشن کے تحت ریور بیڈ، بنجر زمینات اور پہاڑوں کو سرکاری قرار دینا عوام کےلئے کتنا نقصان دہ ہے اور اس کے کتنے فوائد ہو سکتے ہیں؟ اب جب کہ 1975 کے نوٹیفکیشن کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کی گئی ہے تو ایسے میں کچھ لوگ اسے سیاسی رنگ دے رہے ہیں۔ذیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ چترال میں نسلی منافرت پھیلانے کے درپے عناصر اسے ذات پات کی لڑائی قرار دے کر نسلی تعصب کو ہوا دینے کی کوششوں میں بھی مصروف ہیں۔
لینڈ سیٹلمنٹ کے حوالے سے ہمارا نقظہ نظر یہ ہے کہ 1975 کے نوٹیفکیشن کے تحت لینڈ سیٹلمنٹ سے چترال اور چترال کے غریب عوام کو سراسر نقصان ہے اس کا فائدہ کچھ بھی نہیں۔ چترال میں غیر آباد زمینات و پہاڑ وغیرہ سرکاری ہونے سے صرف چند خاندانوں کا نقصان نہیں ہوگا بلکہ عام عوام بھی اس سے شدید متاثر ہوں گے۔ سوشیل میڈیا میں بعض لوگ ان خاندانوں کا نام لے کر غیر ضروری سیاست چمکا رہے ہیں جو کہ قابل مذمت ہے۔ ان چند خاندانوں کے مقابلے میں عام عوام ان بنجر زمینات اور پہاڑوں سے مستفید ہو رہے ہیں۔ مثلآ بلچ ریور بیڈ اگر مہتر چترال یا کٹور خاندان کی ملکیت ہے تو ادھر لوئر چترال میں ہی اورغوچ، خیرآباد لوٹکوہ، کریم آباد، ارکاری، ارندو، شیشی کوہ میں غیر آباد زمینات سے عام عوام کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔اور ملکیت بھی عوام کی ہیں۔
اگر خدانخواستہ چترال میں غیر آباد زمینات سرکاری تحویل میں چلے گئے تو عوام کو قبرستان کی جگہ بھی نہیں ملے گی، کیا سرکار اپنی زمین میں ہمیں اپنے عزیزوں کو دفنانے کی مفت میں اجازت دے گی؟ ہر گز نہیں۔ کیا چترال میں کسی کے پاس اتنی زمین بچے گی کہ عوام کا مشترکہ قبرستان ہو؟
یہ وہ محرکات ہیں کہ ان کے بارے میں تھوڑا نہیں پورا سوچنے کی ضرورت ہے۔ اگر خدانخواستہ ہمارے چراگاہ چمرکھن گول، اویرت گول، شاہ جنالی، اکرام گول، گبور، گولین گول، بونی گول، بشقار گول وغیرہ سرکار کی تحویل میں چلے گئے اور سرکار نے انہیں لیز پہ چترال سے باہر کسی بندے کو دے دیا تو کیا وہ شخص ہمیں ان چراگاہوں سے استفادہ کرنے دے گا؟
خدارا یہ مسئلہ کسی مخصوص خاندان کا نہیں پورے چترال کا مسئلہ ہے۔جو لوگ اس سلسلے میں جدوجہد کر رہے ہیں وہ ہمارے نسلوں کی جنگ لڑی رہے ہیں۔ ہمیں چاہیئے کہ ان کے ساتھ کھڑے نہیں ہو سکتے تو ان کی مخالفت کرکے ان کی حوصلہ شکنی بھی نہ کریں_