کورونا کے سنگین حالات کے پیش نظر نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے وفاقی وزیر تعلیم کو بین الصوبائی وزراء تعلیم کانفرینس بلا کے تعلیمی اداروں کے بارے حتمی فیصلے کرنے کے احکامات جاری کیے۔
ایسے میں پاکستان بھر کے نوی اور گیارویں کے بیس لاکھ سے زائد طلباء میں اُمید کی ایک کرن جاگی ہے، یقیناً یہ اجلاس طلباء پاکستان کی آخری اُمید ہے، اس سے پہلے بھی 28 جولائی کو شفقت محمود نے اپنی سربراہی میں بین الصوبائی وزراء تعلیم کانفرینس بلانے کا اعلان تو کیا مگر وہ اس اعلان پر پورا نہیں اُتر سکے اور کانفرینس سے پہلے لندن تشریف لے گئے یوں ایک بار پھر طلباء کو مایوس کیا گیا۔
پاکستان بھر میں جس طرح کورونا کے حالات اب چل رہے ہیں یقیناً یہ حالات مئی 2020 سے بہت زیادہ سنگین ہیں، کورونا کی چوتھی لہر (ڈیلٹا ویرینٹ) کی سنگینی کے بارے میں عالمی ادارہ صحت (WHO) نے بہت مرتبہ خبردار کیا ہے، اس کی سنگینی کا ثبوت یہ ہے کہ نئی تحقیق کے مطابق یہ وائرس اُن لوگوں کو بھی متاثر کر سکتا ہے جو ویکسین لگوا چکے ہیں اور اس وائرس میں مبتلا ایک شخص پانچ لوگوں کو شدید بیمار کر سکتا ہے۔ مئی 2020 کا حوالہ دینے کا مقصد صرف اتنا ہے جب مئی میں پاکستان میں کورونا پھیل رہا تھا تب حکومت پاکستان نے ملک بھر کے نوی سے باروی تک کے تمام تر پرچے منسوخ کیے تھے اور جو تھوڑے بہت پیپرز ہوئے تھے ملک بھر میں اُن کو بھی منسوخ تصوّر کر کے طلباء کو اگلی کلاس میں ترقی دی تھی ساتھ ہی انٹر بورڈ کمیٹی چیئرمین (IBCC) کے تیارکردہ فارمولہ کے تحت اُن تمام بچوں کے رزلٹ بنائے گئے تھے۔ یقیناً کورونا کے پیش نظر یہ ایک دانشمندانہ فیصلہ تھا جس سے بچوں کو لاحق جانی خطرات ٹل گئے، اُن کا تعلیمی سال بھی ضائع نہیں ہوا اور اُن کا رزلٹ بھی متاثر ہونے سے بچا۔ مگر اس بار حکومت کی طلباء کے ساتھ سلوک قابل افسوس اور نا قابلِ برداشت ہے وہ اس لئے کہ اس بار پورے سال میں کورونا کے پیش نظر تعلیمی اداروں کو صرف تین سے چار مہینوں کے لئے کھولا گیا اور اُن مہینوں میں متبادل کلاسز کا انعقاد کیا گیا جو کہ پورے سال میں صرف پچاس سے پچپن دِن بچوں کو کلاسز میں پڑھایا گیا، جس سے بچوں کا تعلیمی سال شدید متاثر ہوا اور وہ مقررہ وقت میں اپنا کورس مکمل کرنے سے قاصر رہے اس بات کا اقرار شفقت محمود بہت بار کر چکے ہیں کہ طلباء کا یہ مطالبہ درست ہے کہ اُن کو کورس مکمل نہیں کروایا جا سکا، اس کے باوجود حکومت نے طلباء کو کیا ریلیف دیا؟ کچھ بھی نہیں، یہ سب اپنی جگہ، دوسری طرف اس وقت پورا مُلک کورونا کی لپیٹ میں ہے، سندھ میں مکمل لوک ڈاؤن اور دوسرے صوبوں میں اسمارٹ لوک ڈاؤن نافذ ہے، ہر قسم کی ممکنہ پابندیاں لگائی جا چکی ہیں ایسے میں نوی اور گیارویں کے بیس لاکھ سے زائد طلباء کو امتحان دینے پر مجبور کرنا طلباء کی جانی اور تعلیمی بربادی سے کم نہیں، وہ کیسے؟ جیسے 2 جون 2021 کو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے دو ٹوک اعلان کیا اس بار کسی بچے کو امتحان کے بغیر کوئی گریڈ نہیں دیا جائے گا، اور بیسوں مرتبہ یہ بات شفقت محمود کی طرف سے دہرائی گئی ہے بچوں کی صحت اولین ترجیح ہے، اب نوی اور گیارویں کے بچے اُن سے کسی گریڈ کا مطالبہ نہیں کر رہے بلکہ وہ تمام بچے اس بات پر اسرار کر رہے ہیں کہ اگر حکومت ہماری صحت کو لیکے سنجیدہ ہے تو ہمیں بغیر کسی گریڈ کے اگلی کلاس میں ترقی دی جائے اور اگلی کلاس میں جب ہم امتحان دیں گے اُس کے نتائج کی بنیاد پر ہمارے اس سال کے مارکس لگائے جائیں جو کہ پچھلے سال بھی نوی اور گیارویں والوں کے ساتھ حکومت نے ایسا کیا تھا، اس سے شفقت محمود کی اس بات کی بھی تائید ہوگی کہ حکومت نے اس سال امتحان کے بغیر کسی بچے کو گریڈ نہیں دیا ساتھ ہی لاکھوں بچوں کو کورونا کے اس وبا سے کافی حد تک محفوظ کیا جا سکتا ہے، اس فیصلہ سے پاکستان بھر کے نوی اور گیارویں کے لاکھوں بچوں کا اگلا تعلیمی سال بھی وقت پر شروع ہوگا اور اگلے تعلیمی سال میں اس طرح کے نا خوشگوار واقعوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ کورونا کے بڑھتے کیسز کو مد نظر رکھتے ہوئے نوی اور گیارویں کے جو چند پیپرز ہوئے ہیں اُنکو اور جو ہو رہے ہیں اُن کو منسوخ تصوّر کرنا یقیناً ایک دانشمندانہ فیصلہ ہوگا۔ پیپرز کو مزید ملتوی کر کے طلباء کا اگلا تعلیمی سال بھی متاثر کرنا یہ کوئی موزوں فیصلہ نہیں ہوگا اور یقیناً اس سے طلباء کا بہت زیادہ نقصان ہوگا، ساتھ ہی وزراء تعلیم کو اپنے اجلاس میں دسویں اور باروی کے وہ تمام طلباء جو اس سال بغیر پڑھایئے کے امتحان دینے پر مجبور ہوئے اور اپنے امتحانات دے چکے ہیں اُن کو خصوصی رعایت دے کے طلباء کے ساتھ ہمدردی کا ثبوت دینا چاہئے، اب وہ وزراء پر منحصر ہے کہ وہ طلباء کو رعایت کس شکل میں دیتے ہیں، متاثرہ تعلیمی سال کو مدنظر رکھتے ہوئے آیا حکومت اُنکو کچھ فیصد اضافی مارکس دینے کا اعلان کرتی ہے یا پھر اس سال کسی بھی سٹوڈنٹ کو فیل نہ کرنے پر غور کرتی ہے۔ طلباء کے بہترین مفاد میں فیصلے کرنے میں نہ تو ملک و قوم کا کوئی نقصان ہے نا ہی حکومت کو کوئی حرج۔ اب دیکھنا یہ ہے چار اگست کو وزراء تعلیم کس رخ بیٹھتے ہیں، اگر قوم کے بچوں کے بہترین مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کیے جائیں تو ہم اس کی مکمل حمایت کریں گے اور کھل کر حکومت کو داد دیں گے، حکومت کو بھی چائیے قوم کے معماروں کے ساتھ انصاف کے تمام تر تقاضے پورے کر کے اُن کو ایک مثبت انداز میں پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے اجنڈے میں اپنے ساتھ شریک کرے بجائے اس کے کہ معصوم طلباء کے مفادات کو نظراداز کر کے اُن کو اشتعال دلائیں۔ شُکریہ
Twitter account @Azeem_GB
Baaghi Digital Media Network | All Rights Reserved