ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی ایک عالمی ٹیم نے دریافت کیا ہے کہ تقریباً 4,500 سال پہلے تیسری صدی قبل مسیح کے اواخر میں میسوپوٹیمیا موجودہ جنوبی عراق اور شمالی شام میں جنگی مقاصد کےلیے پالتو گدھوں اور جنگلی خچروں کے ملاپ سے پیدا کئے گئے جانور استعمال ہوتے تھے جنہیں ’جنگی گدھے‘ کہا جاسکتا ہے۔
باغی ٹی وی : آن لائن ریسرچ جرنل ، کے تازہ شمارے کے مطابق شاید یہ اوّلین مخلوط نسل کے جانور تھے جنہیں انسان نے تیار کیا تھا ان کے بھی 500 سال بعد جنگوں میں گھوڑوں کا استعمال شروع ہوا تھا۔
ڈائنو سار سے بھی قدیم اور دیوقامت سمندری جانور کےفوسلز دریافت
میسوپوٹیمیا سے ملنے والی قدیم تختیوں پر بنی علامتی تصاویر، جانوروں کے ڈھانچوں اور دوسری دستاویزات پر تحقیق سے معلوم ہوا کہ انہیں ’کُنگا‘ (Kunga) کہا جاتا تھا اور یہ جنگ میں رتھوں کو کھینچنے میں استعمال کیے جاتے تھے آثارِ قدیمہ کے دوسرے شواہد سے یہ بھی پتا چلا کہ ’کُنگا‘ بہت طاقتور تھے اور تیزی سے دوڑنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
انڈے سے نکلنے کو تیار ڈائنو سار کا فوسل دریافت
البتہ، جب ماہرین نے ’کنگا‘ کی ہڈیوں کا تجزیہ کیا تو پریشان ہوگئے کیونکہ یہ جانور جسامت میں قدیم گدھوں اور جنگلی خچروں سے بڑے تھے لیکن گھوڑوں سے چھوٹے تھے اگر یہ گھوڑا، گدھا یا جنگلی خچر نہیں تھا تو پھر ’کُنگا‘ آخر کونسا جانور تھا؟یہ الجھن پچھلے کئی سال سے یونہی چلی آرہی تھی جسےامریکا، فرانس، جرمنی اور چین سے تعلق رکھنے والے ماہرین ایک ٹیم نے جینیاتی تجزیئے سے حل کرلیا ہے۔
برطانیہ سے 9 فٹ لمبے کنکھجورے کی باقیات دریافت
تحقیق کی غرض سے انہوں نے آخری شامی خچر کےٹشوز جین کے نمونے حاصل کیے صرف 3 فٹ اونچائی والا یہ خچر آسٹریا کے ایک چڑیا گھر میں رکھاتھا اور 1927 میں یہ مرچکا تھا لیکن اس کا مُردہ جسم پوری احتیاط سے محفوظ کرکے آسٹریا ہی میں رکھ لیا گیا تھا۔
میسوپوٹیمیا کی قدیم دستاویزات میں ’کُنگا‘ کو بہت قیمتی اور ’انعام میں دیا جانے والا‘ جانور بھی قرار دیا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی پیدائش بہت مشکل کام ہوا کرتی تھی اس کےلیے نر جنگلی خچر پکڑے جاتے تھے جن کا ملاپ گدھی سے کروا کر ’کُنگا‘ پیدا کیے جاتے
اٹلی میں ایک ہی مقام سے 11 ڈائنوسار کا پورا ریوڑ دریافت
اس کے علاوہ انہوں نے جنوب مشرقی ترکی میں گوئبیکلی تیپ نامی علاقے سے ملنے والے، گیارہ ہزار سال قدیم جنگلی خچر کا جین بھی علیحدہ کیا جو خاصی مکمل حالت میں تھا دونوں جانوروں کے جینوم کا موازنہ کرنے پر معلوم ہوا کہ جنگلی خچروں کا ارتقاء بہت تیزی سے ہوا اور اس کا جسم چھوٹا ہوتا چلا گیا تاہم جب میسوپوٹیمیا کے ’کُنگا‘ سے ان کا موازنہ کیا گیا تو واضح طور پر معلوم ہوا کہ ’کُنگا‘ اِن دونوں کے ساتھ ساتھ گدھے سے بھی مشابہت رکھتے تھے۔
رسیوں میں جکڑی سینکڑوں سال پرانی ممی دریافت
اس تجزیئے کی روشنی میں ماہرین نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ’کُنگا‘ دراصل جنگلی خچروں اور میسوپوٹیمیا کے مقامی گدھوں کے ملاپ سے تیار کیے جاتے تھے وہ جسامت میں عام گدھوں اور جنگلی خچروں سے بڑے ہونے کے علاوہ طاقتور اور تیز رفتار بھی تھے لیکن مخلوط (ہائبرڈ) ہونے کی وجہ سے وہ اپنی نسل آگے نہیں بڑھا سکتے تھے۔
زیبرا کی اصل رنگت کیا ہوتی ہے سفید یا سیاہ؟
میسوپوٹیمیا سے ملنے والے ’کُنگا‘ کے ڈھانچوں میں دانتوں اور ہڈیوں پر کچھ مخصوص نشانات ظاہر کرتے ہیں ان کے پورے جسموں پر زرہ بکتر جیسے خول چڑھائے جاتے تھے جبکہ طاقت اور تیز رفتاری کی غرض سے انہیں مخصوص غذائیں کھلائی جاتی تھیں ان تمام خصوصیات کی بناء پر ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے انہیں ’جنگی گدھے‘ کا نام دے دیا ہے-