زیبرا کی اصل رنگت کیا ہوتی ہے سفید یا سیاہ؟

0
78

زیبرا تو آپ نے دیکھا ہوگا مگر کیا آپ نے کبھی سوچا کہ زیبرا کی اصل رنگت کیا ہوتی ہے سفید یا سیاہ سائنس نے اس کا بہت دلچسپ جواب دیا ہے۔

باغی ٹی وی : زیبرا کی کھال کے نیچے جلد سیاہ ہوتی ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ پٹیوں کی سیاہ یا سفید رنگت کا اس سے کچھ لینا دینا ہے زیبرا کے زیادہ تر بال سفید ہوتے ہیں بشمول پیٹ اور ٹانگ کے اندرونی حصے میں، جہاں پٹیوں کا اختتام ہوتا نظر آتا ہے۔

اس سے عندیہ ملتا ہے کہ کھال کی رنگت سفید ہے جبکہ پٹیاں سیاہ، مگر لائیو سائنس کے مطابق یہ اس سوال کو دیکھنے کا غلط نظریہ ہے اصل جواب میلا نوسائٹس نامی خلیات میں چھپا ہوا ہے یہ خلیات رنگت بنانے والے ہارمون میلانین کو بناتا ہے جو زیبرا اور تمام جانداروں کے بالوں اور جلد کی رنگت کا تعین کرتا ہے۔

عالمی وبا کورونا کی نئی قسم کو ’اومی کرون‘ کا نام کیوں دیا؟

جب زیبرا کی کھال اگتی ہے تو میلانوسائٹس جڑوں کو حکم دیتا ہے کہ بالوں کی رنگت ہلکی ہونی چاہیے یا گہری، یہ تعین جسم کے حصوں کی بنیاد پر کرتا ہے یہ خلیات زیادہ میلانین والی سیاہ کھال کو تشکیل دیتا ہے جس سے زیبرا کا مخصوص پیٹرن ہماری آنکھوں کے سامنے آتا ہے۔

زیبرا کے سفید بالوں میں میلانین نہیں ہوتا اور میلانوسائٹس سے بنتے ہیں جو ٹرن آف ہوجاتا ہے آسان الفاظ میں زیبرا کے اگنے والے بال قدرتی طور پر سیاہ ہوتے ہیں جو اس جانور کو سیاہ جلد کے ساتھ سفید پٹیاں فراہم کرتے ہیں یہ تو زیبرا کی پٹیوں کے معمے کا ایک جواب ہے، سائنسدان اب تک نہیں جان سکے کہ یہ پٹیاں ہوتی کس لیے ہیں۔

ایک عام خیال تو یہ ہے کہ اس سے زیبرا کو شکاریوں کو الجھن میں ڈالنے میں مدد ملتی ہےایک تحقیق میں بھی اس خیال کو سپورٹ کیا گیا تھا کہ یہ پٹیاں حشرات الارض کو دور رکھنے میں مدد فراہم کرتی ہیں، جبکہ اسٹائلش انداز اضافی بونس ہے۔

بھارتی گونگی بہری شادی شدہ سکھ خاتون کوگونگے بہرے پاکستانی کے ساتھ شادی مہنگی…

دہائیوں سے کچھ سائنسدان دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ دھاریاں اس چرندے کو درندوں سے بچانے کے لیے کیموفلاج کا کام کرتی ہیں جبکہ دیگر کا خیال ہے کہ یہ کیڑوں کو دور رکھتی ہیں ہنگری کے سائنسدانوں نے 2019 میں اس معمے کا حل جاننے کا دعویٰ کیا تھا۔

ان کے مطابق یہ سیاہ و سفید دھاریاں نہ صرف زیبرا کو خون چوسنے والی ہارس فلائی (گھڑ مکھی یا خرمگس) سے تحفظ فراہم کرتی ہیں بلکہ مختلف جنگلی قبائل نے بھی اس سے یہ ٹرک سیکھ کر جسم کو رنگ کر خون چوسنے والے کیڑوں کے تکلیف دہ ڈنک سے خود کو بچانا سیکھا۔

اس خیال کو آزمانے کے لیے محققین نے مختلف پتلوں کو ایسی سفید دھاریوں سے رنگ دیا جو کہ دنیا بھر میں قبائلی افراد اپنے جسم پر بناتے ہیں انہوں نے دریافت کیا کہ ایسا کرنے پر ہارس فلائی پتلوں سے دور رہیں۔

یہ تجربات ہنگری میں کیے گئے جہاں ہارس فلائی کی متعدد اقسام موسم گرما میں عام ہوتی ہیں اور محققین کے مطابق ان دھاریوں سے روشنی بے ترتیب ہوجاتی ہے جس سے ان کیڑوں کے لیے اپنے ہدف کو دیکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔

رائل سوسائٹی جرنل میں شائع تحقیق کےمطابق انسانی ماڈل ان خون چوسنے والے کیڑوں کے لیے سفید دھاریوں والے ماڈل کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ پرکشش ثابت ہوتے ہیں ایوٹووس یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا تھا کہ ممالیہ جانداروں میں سب سے نمایاں دھاریاں زیبرا میں ہی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ہارس فلائی کی نظر میں ان کی کشش بہت کم ہوجاتی ہے

امریکی جیل میں 43 سال سے قید بے گناہ شخص کو رہائی مل گئی

Leave a reply