۸ذوالحج امام حسینؑ کی کربلا روانگی تحریر: ضیاء عبدالصمد

کیا صرف مسلمان کے پیارے ہے حسینؑ
چراغ نوع بشر کے تارے ہیں حسینؑ
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے کی ہمارے ہیں حسینؑ

واقعہ کربلا یا واقعہ عاشورا سنہ 61 ہجری کو کربلا میں پیش آیا ۔جس میں یزیدی فوج کے ہاتھوں امام حسینؑ اور آپؑ کے اصحاب شہید ہوگئے۔ واقعہ کربلا مسلمانوں کے نزدیک تاریخ اسلام کا دلخراش ترین اور سیاہ ترین واقعہ ہے۔

روانگی کے اسباب

مام حسینؑ نے چار ماہ کے قریب مکہ میں قیام فرمایا۔ اس دوران کوفیوں کی طرف سے آپ کو کوفہ آنے کے دعوت نامے ارسال کیے گئے اور دوسری طرف سے یزید کے کارندے آپؑ کو حج کے دوران مکہ میں شہید کرنے کا منصوبہ بنا چکے تھے اس بناء پر آپؑ نے یزیدی سپاہیوں کے ہاتھوں قتل کے اندیشے اور اہل کوفہ کے دعوت ناموں کے پیش نظر 8 ذی‌ الحجہ کو کوفہ کی جانب سفر اختیار کیاکوفہ پہنچنے سے پہلے ہی آپؑ کوفیوں کی عہد شکنی اور مسلم کی شہادت سے آگاہ ہو گئے کہ جنہیں آپ نے کوفہ کے حالات کا جائزہ لینے کیلئے کوفہ روانہ کیا تھا۔ تاہم آپؑ نے اپنا سفر جاری رکھا یہاں تک کہ حر بن یزید نے آپ کا راستہ روکا تو آپ کربلا کی طرف چلے گئے جہاں کوفہ کے گورنر عبیدالله بن زیاد کی فوج سے آمنا سامنا ہوا۔ اس فوج کی قیادت عمر بن سعد کے ہاتھ میں تھی۔

15 رجب سنہ 60 ہجری کے بعد، لوگوں سے یزید کی بیعت لی گئی۔ یزید نے بر سر اقتدار آنے کے بعد ان چیدہ چیدہ افراد سے بیعت لینے کا فیصلہ کیا جنہوں نے معاویہ کے زمانے میں یزید کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اسی بنا پر اس نے مدینہ کے گورنر ولید بن عتبہ بن ابی سفیان کے نام ایک خط ارسال کر کے معاویہ کی موت کی خبر دی اور ساتھ ہی ایک مختصر تحریر میں ولید کو "حسین بن علی، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر سے زبردستی بیعت لینے اور نہ ماننے کی صورت میں ان کا سر قلم کرنے کی ہدایت کی
اس کے بعد یزید کی طرف سے ایک اور خط لکھا گیا کہ جس میں حامیوں اور مخالفین کے نام اور حسین بن علیؑ کا سر بھی اس خط کے جواب کے ساتھ بھجوانے کی تاکید کی گئی تھی۔چنانچہ ولید نے مروان سے مشورہ کیا؛ اور اس کی تجویز پر مذکورہ افراد کو دارالامارہ بلوایا گیا۔

امامؑ اپنے 30 عزیز و اقارب کے ہمراہ دارالامارہ پہنچے۔ولید نے ابتداء میں معاویہ کی موت کی خبر سنائی اور پھر یزید کا خط پڑھ کر سنایا جس میں اس نے "حسینؑ سے اپنے لئے بیعت لینے کی تاکید کی تھی”۔ اس موقع پر امام حسینؑ نے ولید سے کہا: "کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ میں رات کی تاریکی میں یزید کی بیعت کروں؟ میرا خیال ہے کہ تمہارا مقصد یہ ہے کہ میں لوگوں کے سامنے یزید کی بیعت کروں”۔ ولید نے کہا: "میری رائے بھی یہی ہے”۔امامؑ، نے فرمایا: "پس، کل تک مجھے مہلت دو تا کہ میں اپنی رائے کا اعلان کروں”۔

کوفیوں کے خطوط اور امامؑ کو دعوت قیام:

سلیمان بن صُرَد خزاعی کا امام حسینؑ کے نام خط:
..اس خدا کا شکر بجا لاتا ہوں جس نے آپؑ کے دشمن کا خاتمہ کیا(معاویہ کی موت کی طرف اشارہ ہے)؛ وہ شخص جس نے اس امت کے خلاف بغاوت کی؛ ان کے اموال کو غصب کیا اور ان کی رضایت کے بغیر ان پر حاکم ہو گئے؛ اس کے بعد نیک لوگوں کو قتل کیا اور بدکاروں کو باقی رکھا اور بیت المال کو ثروتمندوں میں بانٹ دیا؛ خدا اسے قوم ثمود کے ساتھ محشور کرے؛ اس وقت ہماری رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں ہے، تشریف لائیں، شاید خداوند متعال ہم سب کو آپ کی قیادت میں راہ حق پر متحد ہونے کی توفیق دے…

طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج۵، ص۳۵۱.

اس سفر میں سوائے محمد بن حنفیہ[18] کے اکثر عزیز و اقارب منجملہ آپؑ کے فرزندان، بھائی بہنیں، بھتیجے اور بھانجے آپؑ کے ساتھ تھے۔[19] بنی ہاشم کے علاوہ آپ کے اصحاب میں سے 21 افراد بھی اس سفر میں آپ کے ہمراہ تھے۔[20]

آپ کے بھائی محمد بن حنفیہ کو جب امام حسینؑ کے سفر پر جانے کی اطلاع ملی تو آپ سے خداحافظی کیلئے آئے۔ اس موقع پر امامؑ نے بھائی کے نام تحریری وصیتنامہ لکھا جس میں درج ذیل جملے بھی مذکور ہیں:

إنّی لَم اَخْرج أشِراً و لا بَطِراً و لا مُفْسداً و لا ظالماً وَ إنّما خرجْتُ لِطلب الإصلاح فی اُمّة جدّی اُریدُ أنْ آمُرَ بالمعروف و أنْهی عن المنکر و اسیرَ بِسیرة جدّی و سیرة أبی علی بن أبی طالب

ترجمہ:میں خود خواہی یا سیر و تفریح کے لئے مدینہ سے نہیں نکلا اور نہ ہی میرے سفر کا مقصد فساد اور ظلم ہے بلکہ میں صرف اپنی جد کی امت کی اصلاح کیلئے نکلا ہوں، میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ارادہ رکھتا ہوں، میں اپنے جد اور باپ کی سیرت پر چلوں

امام حسینؑ مکہ میں چار مہینے پانچ دن اقامت کے بعد بروز پیر 8 ذوالحجہ (جس دن مسلم بن عقیل نے کوفہ میں قیام کیا) 82 افراد کے ساتھ(جن میں سے 60 افراد کوفہ ، مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوا۔

بعض نے تاریخی اور حدیثی شواہد کو مد نظر رکھتے ہوئے کها ہے کہ امام حسینؑ نے شروع سے ہی عمرہ مفردہ کی نیت کر رکھی تھی اسی لئے حج کے موسم میں مکہ سے باہر تشریف لے گئے۔

مکہ میں قیام کے آخری مہینے میں جب امام حسینؑ کا کوفہ کی طرف جانے کا احتمال شدت اختیار کرنے لگا تو بہت سارے افراد نے اس سفر کی مخالفت کی منجملہ ان افراد میں عبداللّہ بن عبّاس اور محمّد بن حنفیہ امام کی خدمت میں آئے تاکہ آپؑ کو کوفہ کی طرف سفر کرنے سے منع کریں لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے۔

جب امام حسینؑ اور آپ کے ساتھی مکہ سے باہر نکلے تو مکہ کے گورنر عمرو بن سعید بن عاص کی فوج نے یحیی بن سعید کی سرکردگی میں امام حسینؑ کا راستہ روکا لیکن آپ نے کوئی اہمیت نہیں دی اور اپنا سفر جاری رکھا۔

Comments are closed.