سپریم کورٹ، فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل کالعدم قرار

0
380
supreme court01

سپریم کورٹ ،فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی

سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دیدیا ،فوج کی تحویل میں موجود ملزمان کی درخواستیں خلاف قواعد ہونے پر خارج کر دی گئیں ،آرمی ایکٹ کے سیکشن 59 کی ذیلی شق ایک کالعدم قرار دے دی گئی،عدالت نے محفوظ فیصلہ سنا دیا.جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا۔عدالت نے فیصلے میں کہا کہ 9 مئی کے ملزمان کا ٹرائل عام عدالتوں میں ہوگا،ملزمان کے جرم کی نوعیت کے اعتبار سے مقدمات عام عدالتوں میں چلائے جائیں ،سپریم کورٹ نے فیصلہ چار ایک کی اکثریت سے سنایا،جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا

عدالت نے فوج کی تحویل میں موجود ملزمان کی درخواستیں واپس کردیں،جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ فوجی تحویل میں افراد کی درخواستوں کے ساتھ بیان حلفی نہیں ہیں، فوجی تحویل میں 9 ملزمان کی درخواستیں واپس لے لی گئیں،

جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی بینچ نےسماعت کی،بینچ میں جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں،اٹارنی جنرل بنچ کے سامنے پیش، دلائل کا آغازکردیا،اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع ہوچکا ہے ،ممنوعہ علاقوں اور عمارات پر حملہ بھی ملٹری عدالتوں میں جا سکتا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ دہشتگردوں کا ٹرائل کرنے کے لیے آئینی ترمیم ضروری تھی عام شہریوں کے لیے نہیں؟ میں آپ کے دلائل کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں،اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمڈ فورسز سے ملزمان کا ڈائریکٹ تعلق ہو تو کسی ترمیم کی ضرورت نہیں،ملزمان کا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے سیکشن ٹو ون ڈی ٹو کے تحت ٹرائل کیا جائے گا، سوال پوچھا گیا تھا کہ ملزمان پر چارج کیسے فریم ہو گا،آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل میں فوجداری مقدمہ کے تمام تقاضے پورے کئے جائیں گے،نو مئی کے ملزمان کا ٹرائل فوجداری عدالت کی طرز پر ہوگا،فیصلے میں وجوہات دی جائیں گی شہادتیں ریکارڈ ہوں گی،آئین کے آرٹیکل 10 اے کے تحت شفاف ٹرائل کے تمام تقاضے پورے ہوں گے،ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں اپیلیں بھی کی جا سکیں گی،دلائل کے دوران عدالتی سوالات کے جوابات بھی دوں گا،

اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ عدالت کو یہ بھی بتائوں گا کہ اس وقت فوجی عدالتوں کیلئے آئینی ترمیم کیوں ضروری نہیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ماضی کی فوجی عدالتوں میں جن کا ٹرائل ہوا وہ کون تھے؟ کیا 2015 کے ملزمان عام شہری تھے، غیرملکی یا دہشتگرد؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزمان میں ملکی و غیرملکی دونوں ہی شامل تھے،سال 2015 میں جن کا ٹرائل ہوا ان میں دہشتگردوں کے سہولت کار بھی شامل تھے،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ دہشتگردوں کیلیے ترمیم ضروری تھی عام شہریوں کیلئے نہیں ؟ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ اپنے دلائل کو آئین کے آرٹیکل 8 کی زیلی شق تین سے کیسے جوڑیں گے ؟ آئین کے مطابق تو قانون میں آرمڈ فورسز سے تعلق ضروری ہے ،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ قانون واضح ہے پھر ملزمان کا تعلق کیسے جوڑیں گے،جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپکی تشریح کو مان لیا توآپ ہر ایک کو اس میں لے آئیں گے ،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ دیتا ہے ،سویلینز آرمی ایکٹ کے دائرے میں کیسے آتے ہیں؟

جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ آئین کا آرٹیکل 8 کیا کہتا ہے اٹارنی جنرل صاحب؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 8 کے مطابق بنیادی حقوق کے برخلاف قانون سازی برقرار نہیں رہ سکتی، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آرمی ایکٹ افواج میں نظم و ضبط کے قیام کے لیے ہے، افواج کے نظم و ضبط کے لیے موجود قانون کا اطلاق سویلینز پر کیسے ہو سکتا ہے؟ 21ویں آئینی ترمیم کا دفاع کیسے کیا جا سکتا ہے؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ افواج کا نظم و ضبط اندرونی جبکہ افواج کے فرائض کے انجام میں رکاوٹ ڈالنا بیرونی معاملہ ہے، فوجی عدالتوں میں ہر ایسے شخص کا ٹرائل ہوسکتا جو اسکے زمرے میں آئے، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جن قوانین کا آپ حوالہ دے رہے ہیں وہ فوج کے ڈسپلن سے متعلق ہیں، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا بنیادی حقوق کی فراہمی پارلیمان کی مرضی پر چھوڑی جا سکتی ہے؟آئین بنیادی حقوق کی فراہمی کو ہر قیمت پر یقینی بناتا ہے، عام شہریوں پر آرمی کے ڈسپلن اور بنیادی حقوق معطلی کے قوانین کیسے لاگو ہوسکتے؟ عدالت نے یہ دروازہ کھولا تو ٹریفک سگنل توڑنے والا بھی بنیادی حقوق سے محروم ہوجائے گا، کیا آئین کی یہ تشریح کریں کہ جب دل چاہے بنیادی حقوق معطل کر دیے جائیں؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمڈ فورسز سے ملزمان کا ڈائریکٹ تعلق ہو تو کسی ترمیم کی ضرورت نہیں،جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آرمی ایکٹ آرمڈ فورسز کے اندر ڈسپلن کی بات کرتا ہے، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ آپ آرمی ایکٹ کا دیباچہ پڑھیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ قانون پڑھیں تو واضح ہوتا ہے یہ تو فورسز کے اندر کے لئے ہوتا ہے، آپ اس کا سویلین سے تعلق کیسے دیکھائیں گے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی ایکٹ افسران کو اپنے فرائض سرانجام دینے کا بھی کہتا ہے، کسی کو اپنی ڈیوٹی ادا کرنے سے روکنا بھی اس قانون میں جرم بن جاتا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ لیکن قانون مسلح کے اندر موجود افراد کی بھی بات کرتا ہے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ بات فورسز میں ڈسپلن کی حد تک ہو تو یہ قانون صرف مسلح افواج کے اندر کی بات کرتا ہے،جب ڈیوٹی سے روکا جائے تو پھر دیگر افراد بھی اسی قانون میں آتے ہیں، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آئین اور قانون فرائض کی ادائیگی کو پاپند آرمڈ فورسز کو کرتا ہے،قانون انہیں کہتا ہے کہ آپ فرائص ادا نہ کر سکیں تو آئین کے بنیادی حقوق کا حصول آپ پر نہیں لگے گا،آپ اس بات کو دوسری طرف لیکر جارہے ہیں، آپ کہہ رہے ہیں جو انہیں ڈسٹرب کرے ان کے لئے قانون ہے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمڈ فورسز سے تعلق کی اصطلاح بھی موجود ہے،میں لیاقت حسین کیس سے بھی دلائل دینا چاہوں گا، اٹارنی جنرل نےا ایف بی علی کیس کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ بریگیڈئیر ایف بی علی ریٹائرڈ ہوچکے تھے،ایف بی علی ریٹائرڈ تھے اس لیے سیکشن 2 ون ڈی کے تحت چارج ہوئے،دیکھنا یہی ہوتا ہے کہ کیا ملزمان کا تعلق آرمڈ فورسز سے ثابت ہے یا نہیں،
اس عدالت نے 21ویں آئینی ترمیم کا جائزہ لیا اور قرار دیا کہ فیئر ٹرائل کا حق متاثر نہیں ہوگا،جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ آپ ساری آرمڈ فوسز کے کیسز پڑھ رہے ہیں، ان کیسز کا موجودہ سے کیا تعلق ہے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری گزارش یہ ہے کہ گٹھ جوڑ والا معاملہ موجود ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ کوٹ مارشل کو آئین تسلیم کرتا ہے،جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ مجھے اسی نقطے کی وضاحت کر دیں،

خیال رہے کہ سانحہ 9 مئی سے متعلق فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل شروع ہوگیا اور وفاقی حکومت نے اس حوالے سے سپریم کورٹ کو آگاہ کردیا تھا اور وفاقی حکومت کی متفرق درخواست میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے 3 اگست کے حکم نامےکی روشنی میں عدالت کو ٹرائلزکے آغاز سے مطلع کیا جارہا ہے اور فوجی تحویل میں لیے گئے افراد کوپاکستان آرمی ایکٹ 1952 اورآفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت گرفتارکیا گیا تھا جبکہ گرفتار افراد جی ایچ کیو راولپنڈی اور کورکمانڈر ہاؤس لاہورپر حملے میں ملوث ہیں اور گرفتار افراد پی اے ایف بیس میانوالی، آئی ایس آئی سول لائنز فیصل آباد پرحملے میں بھی ملوث ہیں۔

 کسی سویلین کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں نہیں ہونا چاہیے

کرپشن کا ماسٹر مائنڈ ہی فیض حمید ہے

برج کھیل کب ایجاد ہوا، برج کھیلتے کیسے ہیں

عمران خان سے اختلاف رکھنے والوں کی موت؟

حضوراقدس پر کوڑا بھینکنے والی خاتون کا گھر مل گیا ،وادی طائف سے لائیو مناظر

برج فیڈریشن آف ایشیا اینڈ مڈل ایسٹ چیمپئن شپ مہمان کھلاڑی حویلی ریسٹورنٹ پہنچ گئے

کھیل سے امن کا پیغام دینے آئے ہیں.بھارتی ٹیم کے کپتان کی پریس کانفرنس

وادی طائف کی مسجد جو حضور اقدس نے خود بنائی، مسجد کے ساتھ کن اصحاب کی قبریں ہیں ؟

9 مئی کے بعد زمان پارک کی کیا حالت ہے؟؟

واضح رہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں جلاؤ گھیراؤ ہوا، تحریک انصاف کے کارکنان کی جانب سے فوجی تنصیبات پر حملے کئے گئے، حکومت کی جانب سے فیصلہ ہواکہ حملے کرنیوالے تمام شرپسندوں کے مقدمے ملٹری کورٹ میں چلائے جائیں گے ,تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ہونے والے جلاؤ گھیراؤ،ہنگامہ آرائی میں ملوث افراد دن بدن بے نقاب ہو رہے ہیں، واقعات میں ملوث تمام افراد کی شناخت ہو چکی ہے ،جناح ہاؤس لاہور میں حملہ کرنیوالے ایک اور شرپسند کی ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں شرپسند نے اعتراف جرم کرتے ہوئے بتایا کہ وہ تحریک انصاف کا کارکن اور قیادت کے کہنے پر حملہ کیا ہے،

Leave a reply