ہُد ہُد کی خوبی

0
472

ہُدہُد کی خوبی
حضرت سلیمان کی بادشاہت کا اعلان ج اس زمین پر ہوا تو درندوں چرندوں کے ساتھ پرندے بھی اطاعت کے لیے بارگاہ عالی میں حاظر ہوئے انہوں نے حضرت سلیمانؑ کو زبان داں اور محرم راز پایا تو جان و دل سے آپؑ ہر فدا ہو گئے اپنی چوں چوں ترک کی اور پیغمبر خدا کی صحبت اختیار کی چند ہی دنوں کے اندر اندر سب پرندے بنی آدم۔سے زیادہ فصیح و بلیغ زبان میں باتیں کرنے لگے حضرت سلیمانؑ کے دربار میں کیا چرند کیا پرند سبھی حکمت و دانائی کی باتیں کرتے یہ اصل میں اپنی خلقت کا ا ظہار تھا غرور یا شیخی کا اس میں دخل نہ تھا اور ان باتوں کا مقصد یہ بھی تھا کہ پیغمبر خدا کو تعلیم و ہدایت کی۔تبلیغ کرنے میں کچھ مدد ملے ایک دن دربار لگا ہوا تھا اور معمول کے مطابق حاظرین دربار اپنی اپنی بولیاں بول رہے تھے علم حکمت اور دانائی کی۔نہریں جاری تھیں اس روز پرندے اپنی صفات اور ہنر بیان کر رہے تھے آخر میں ہد ہد کی باری آئی اس نے کہا اے علم حکمت کے بادشاہ مجھ میں ایک خوبی سب سے ادنی ہے صرف وہی عرض کرنے کی۔جسارت کرتا ہوں کہ داناوں نے کہا ہے مختصر کلام ہی سود مند ہوتا ہے حضرت سلیمان نے فرمایا وہ کون سی ادنی خوبی تیری ذات میں ہے؟ ہد ہد نے ادب سےعرض کیا وہ خوبی یہ ہے کہ جب میں بے پناہ بلندیوں پر پرواز کرتا ہوں تو پانی اگر زمین کی گہرائیوں میں بھی ہو تو مجھے نظر آ جاتا ہے میں یہ بھی جان لیتا ہوں۔کہ اس پانی کی خاصیت کیا ہے کتنی گہرائی میں ہے اس کا رنگ کیا ہے زمین سے نکل رہا ہے یا پتھر سے رِس رہا ہے

چراغ کی روشنی اوراجنبی شخص


اے پیغمبر تو مجھے اپنے لشکر جرار کے ساتھ لے کر چل تاکہ پانی کی ضرورت پڑے تو میں نشاندہی کروں حضرت سلیمانؑ نے ہد ہد کی اس خاصیت کی بہت تعریف و توصیف فرمائی اعر اجازت عطا ہوئی کہ بے آب و گیاہ صحراوں میں سفر کے دوران تو ہمارے ہر اول کے ساتھ رہا کر تاکہ پانی کا۔کھوج لگاتا رہے اُدھر بری عادات والے کوے نے جب سنا کہ ہد ہد کو ہر اول میں۔شریک رہنے کا اعزاز حضرت سلیمانؑ کی۔جانب سے عطا ہوا ہے تو مارے حسد کے سیاہ پڑ گیا انگاروں پر لوٹنے لگا فوراً پیغمبر خدا کے سامنے آ کر کہا اس ہد ہد نے آپؐ کے حضور سخت گستاخی کی ہے اور قطعی جھوٹا دعوی کیا ہے اسے اس جھوٹ اور غلط بیانی کی سزا دی جائے اس سے ہوچھئے کہ اگر تیری نظر ایسی تیزی نظر ایسی تیز ہے کہ زمین کی گہرائیوں میں چھپے ہوئے پانی کی خبر لاتی ہے تو پھر ذرا اسی خاک میں چھپا ہوا وہ پھندا کیوں نہیں دکھائی دیتا جو شکاری تجھے پھانسنے کے لیے لگاتا ہے ایسا ہی ہنر رکھتا ہے تو گرفتار کیوں ہوتا ہے آسمان کی بے پناہ بلندیوں سے وہ جال کیوں نہیں دیکھ لیتا؟

نقلی انڈوں کی پہچان کیسے کی جائے؟


کوے کی یہ بات سن کر حضرت سلیمانؑ نے ہدہد سے کہا اے ہدہد کوے نے جو بات کہی وہ تو نے سنی اب اس کا جواب تیرے ذمے ہے اہنے دعوے کی صداقت کا ثبوت پیش کرو ورنہ سزا کے لیے تیار ہو جاو ہدہد نے بے خوف ہو کر عرض کیا اے بادشاہ ناراض مت ہوئیےاور بدنیت دشمن نے حسد سے جل بھن کر میرے خلاف جو بات کی ہے اس پر دھیان نہ دیجیے اب رہا یہ سوال کہ مجھے وہ مُٹھی بھر خاک میں چھپا ہوا پھندا کیوں نظر نہیں آتا تو اس بارے میں کیا عرض کروں اگر حق تعالی کی حکمت و مرضی میری عقل کی۔روشنی نہ بجھائے تو میں یقیناً پرواز کے دوران وہ حقیر پھندا بھی دیکھ لوں لیکن جب فرمانِ قضا و قدر جاری ہو اور میرا وقت آجائے تو نگاہ کی۔خوبی کیا کرے ایسے موقع پر عقل کام نہیں کرتی چاند سیاہ ہو جاتا ہے اورسورج گہن میں آجاتا ہے میری عقل اور بسارت میں یہ طاقت کہاں کہ فرمانِ۔خداوندی کا مقابلہ کر سکے اے عزیز اسی طرح جب قوموں اور افراد پر عذابِ الہی ان کے بد اعمالوں کے سبب نازل ہوتا ہےتو ان کی عقل اور بینائی سلب کر لی جاتی ہے (حکایت مولانا رومی )

Leave a reply