گُردوں کے امراض جدید تحقیق کی روشنی میں
گردہ انتہائی نازک عضو ہے یہ انتہائی پچیدہ فرائض سر انجام دے رہا ہے اللہ تعالی کا بنایا ہوا یہ عضو انتہائی باریکی کے ساتھ جسم کے فاسد مادوں کو فلٹر کرنے کا کام۔سرانجام دیتا ہے اس کی انتہائی باریک جھلیاں جسم کو فاسد مادے سح صاف رکھنے میں مدد دیتی ہے ایک گردے میں عممومی طور پر دس لاکھ فلٹر یونٹس پائے جاتے ہیں قدرت کی۔باریکیوں کا اندازہ لگائیے انسان ایک لاکھ تو کیا اتنے چھوٹے سے گردے میں ایک۔ہزار فلٹر یونٹس لگانے کے قابل بھی نہیں اور پھر انہی فلٹر یونٹس کے مابین فاصلہ بھی پایا جاتا ہے یہی فلٹر یونٹس خون اور پیشاب کی نالی کے درمیان ایک واضح رکاوٹ ہیں اس میں انتہائی باریک اور کسی دروازے کی طرح تین تہی خلیے ہر بڑی چیز کے اخراج کو روکتے ہیں ان دروزاہ نما خلیات سے انتہائی باریک مالیکیولز ہی خارج ہو سکتے ہیں جبکہ سوڈیم اور پوٹاشئیم کے مالیکیولز کو پیچھے ہی روک لیا جاتا ہے ایک خطرناک مرض ایف ایس جی ایس کہلاتا ہے
اس بیماری میں گردوں کے انتہائی باریک اور مائیکروسکوپ سے دکھائی دینے والے فلٹر یونٹس متاثر ہو جاتے ہیں یہ یونٹ جسم۔کو خون میں پیدا ہونے والے بعض کیمیکلز سے پاک کرتے ہیں لیکن اگر یہی فلٹر یونٹس خراب ہو جائیں تو ان کے اندر سے یہی مائع یا کیمیکلز رسنا شروع ہو جاتے ہیں ان باریک سے سوراخوں سے ایک اہم اور خاص قسم کی پروٹین ایلبومن رسنا شروع ہو جاتی ہے یہ پروٹین خون کی کیمسٹری ہر اثر انداز ہوتی ہے خون کے ذریعے سے یہ جسم کے مختلف حصوں میں پھیل جاتی ہے پروٹین کی ان دونوں اقسام کا رسنا ٹھیک نہیں یہ دونوں پروٹینز اپنی اپنی جگہ مختلف امراض کو جنم۔دیتی ہیں ابتدائی طور پر تو اس خرابی کو دور کیا جا سکتا ہے لیکن زیادہ وقت گزرنے کی۔صورت میں یہ مرض لاعلاج ہو جاتا ہے دنیا بھر میں ساٹھ کروڑ سے زائد افراد گردوں کح مختلف امراض میں مبتلا ہیں پاکستان اس حوالے سے آٹھویں نمبر پر ہے پاکستان میں بیس ہزار سے زائد افراد گردوں کے دائمی امراض کے باعث جاں بحق ہو جاتے ہیں بیرون ملک اس کے پھیلاو کی وجوہات میں حرام مشروبات کا استعمال بھی شامل ہے جبکہ ہمارے ہاں ادویات کا بے تحاشا پھیلاو اس کے پھیلاو کی۔بڑی وجہ ہے طاقتور دواوں کا اندھا دھند استعمال گردوں کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے بہت سے مریض اپنے طور پر پانچ ہانچ سو گرام کی گولیاں کھا جاتے ہیں ان اصلی اور جعلی ادویات کا بے تحاشا استعمال نہ صرف گردوں کو بلکہ دوسرے اعضاء کو بھی متاثر کیا ملاوٹی اور ناقص خوراک غیر معیاری پانی موٹا پا ذہنی پریشانیاں پتھری اور ذیا بیطس سمیت کئی وجوہات ہیں
اس کی ایک اور وجہ جنک فوڈ کا بے تحاشا استعمال ہے بہت سے لوگ سردیوں میں پانی نہیں پیتے اور گرمیوں میں پانہ مطلوبہ مقدار میں دستیاب نہیں خاص کر جسمانی مشقت کرنے والوں کو صاف پانی نہیں ملتا پنجاب کح پسماندہ۔علاقوں کے بیشتر لوگ اپنے مرض سے آگاہ ہی نہیں ہوتے انہیں گردے کی خرابی کا علم اکثر اس وقت ہوتا جب یہ مراض لاعلاج ہو گیا ایسے لوگوں کو اس کے بارے میں۔شعور دے کر بہت سی زندگیوں کو بچایا جا سکتا ہے گردے کی پیوند کاری کو ایک محفوظ طریقہ تصور کیا جاتا ہے مگر در حقیقت یہ اتنا سادہ اعر آسان کام نہیں پیوند کاری کے بعد اگر کوئی۔مریض مر جائے تو عام۔طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جسم کے مدافعتی نظام نے پیوند کاری کو قبول نہیں کیا امریکہ میں تیس فیصد کیسوں میں پیوند کاری ناکام۔رہی پھر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جسم کے مدافعاتی نظام نے ہی نئے پیوند شدہ گردے کے خلاف کام کیا جو موت کا سبب بنا ہر کیس میں۔ایسا نہیں ہوتا کئی کیسوں میں یہ ہوتا ہے کہ جب نیا گُردہ لگایا جاتا ہے تو اس میں بھی وہی خرابی یعنی بیماری پھیل جاتی ہے جس سے اصلی گُردہ متاثر ہوا فوری علاج کی صورت میں اس بیماری کو جان لیوا ہونے سے بچایا جا سکتا ہے
ہمارے ہاں مختلف عمروں میں ہونے والی اموات پر کبھی کوئی تحقیق نہیں ہوئی کوئی نوجوان جوانی میں کیوں چل بسا کبھی شماریات کے صوبائی یا وفاقی ادارے نے ڈیٹا اکٹھا نہیں کیا تاہم امریکہ میں نوجوانی میں بڑھنے والی اموات نے معاشرے کو ہلا۔کر رکھ دیا ایک اندازے کے مطابق وہاں تیس سے چالیس سال کے عمر کے نوجوانوں کی اموات میں یورپی ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ اضافہ ہوا ہے اور اس کے پیچھے گُردوں کے امراض ہیں انہوں نے کہا پروٹین کی ایک اور قسم جسے سولیوبل یوکائینز پلازمینوجن ایکٹیوِیٹر ریسیپٹر یعنی suPAR کہا جاتاہے جسم میں اس پروٹین کی۔مقدار مناسب ہونے کی صورت میں گردوں کے ایک خطرناک مرض سے بچا جا سکتا ہے پہلے مرحلے میں یہ بیماری خون صاف کرنےطکی صلاحیت متاثر کرتی ہے بعد ازاں دل کے امراض اور ذیابیطس کا بھی سبب بن سکتی ہے گردوں کے فلٹر یونٹس میں خرابی ناقابل اصلاح ہے یہ کام انسان کے بس میں نہیں درحقیقت متیض کے فلٹر یونٹس بُری طرح جُھلس جاتے ہیں انہیں ٹھیک کرنا ممکن نہیں ہوتا
مقبول غذاوں اور مشروبات کی زیادہ مقدار بھی جان لیوا ہو سکتی ہے
نئی تحقیق کی روشنی میں گردوں کے بعض امراض کا علاج آسان اور ممکن ہو جائے گا کسی بھی بیماری کی صورت میں جسم کا۔قدرتی مدافعتی نظام متحرک ہو۔جاتا ہے بعض اوقات یہ۔نظام جراثیموں کو مارنے کے لیے ضرورت سے زیادہ suPAR نامی پروٹین پیدا کرتا ہے جو نقصان دہ۔ثابت ہوتی ہے اپنے ہی صحت مند نظام کو نقصان پہنچانا شروع کر دیتا ہے امریکہ کے معروف کڈنی سپیشلسٹ جوچین ریزر نے اس پر تحقیق کی ہے وہ رش یونیورسٹی کے میڈیکل سنٹر میں انٹرنل۔میڈیکل کے شعبے کے چئیر مین بھی ہیں انہوں نے طب کی دنیا کے یکسر نظریات کو غلط قرار دیا ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی میں suPAR پروٹین کی مقدار کم پائی جاتی ہے تو پھر وہ گردوں کے امراض سے محفوظ ہے وہ اس مرض کا شکار نہیں بن سکتا ہے انہوں نے یہ تحقیق جانورں کے مالیکیولز پر کی جو گردوں کے اسی مرض میں مبتلا تھے انہوں نے ثابت کیا کہ گردے کے اس مرض سوپار کو کنٹرول کرکے ٹھیک کیا جا سکتا ہے یعنی گردوں کے اس خطرناک مرض کا علاج ممکن ہے
تاہم ان کی اس تحقیق سے کچھ محققین متفق نہیں کیونکہ کلینکل تجربات میںsuPAR کی۔مقدار اور ایف ایس جی ایس میں براہ راست تعلق کی تصدیق نہیں ہوئی تاہم دونوں اقسام کی تحقیقات میں مریضوں میں suPAR کی۔مقدار کو نظر انداز کرنا مشکل ہے اس بات کو بھی جھٹلانا مشکل ہے کہ اس کا تعلق ہارٹ اٹیک ذیابیطس اور قبل۔از وقت موت سے ہے ان کا یہ بھی خیال ہے کہ خون میں ہی ایسی کوئی چیز شامل ہوتی ہے جو پیوند کاری کے بعد گردے پر دوبارہ حملہ کرتی ہے بس ہمیں اسی کو پکڑنا ہے اپنی دس سالہ تحقیق کے دوران انہوں نے خون میں ایلبومن نامی پروٹین کی۔موجودگی اور اس کے گردوں کے بعض امراض سے تعلق کا پتہ چلایا یہ پروٹین گردے کے فلٹر یونٹ سے رسنے کے بعد خون اور پٹھوں میں شامل ہوئی انہوں نے کہا کہ ایک مالیکیول کی مدد سے اس مرض کی تمام۔تفصیلات کا راز پایا جا سکتا ہے یہ مالیکیول ہی اس مرض کے بارے میں بہترین آگاہی دے سکتا ہے