ڈیووس:دنیا سن لے!پاکستان کسی کی جنگ نہیں لڑے گا،کشمیریوں کوبھارتی مظالم سے نجات دلانا عالمی برادری کی ذمہ داری ہے، عمران خان کا عالمی میڈیا کونسل سے خطاب،اطلاعات کےمطابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ جن وجوہ سے ملک تباہ ہوا اس ماضی کی طرف نہیں جائیں گے، اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ کسی کی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے۔تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان آج ڈیووس، سوئٹزرلینڈ میں پاکستان اسٹریٹیجی ڈائیلاگ سے خطاب کر رہے تھے، انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے بھاری نقصان اٹھایا، اس جنگ کے دوران کلاشنکوف کلچر اور منشیات نے ہمارے معاشرے کو تباہ کر دیا، جن وجوہ سے ملک تباہ ہوا اس ماضی کی طرف نہیں جائیں گے۔

وزیر اعظم پاکستان کا کہنا تھا کہ افغان جنگ سے کلاشنکوف اورمنشیات کے کلچر نے جنم لیا، جس نے ہمارے معاشرے کو تباہ کیا، 80 کی دہائی میں عسکری گروپس سے ہونے والے نقصانات آج بھی ہم بھگت رہے ہیں، پاکستانی قوم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 70 ہزار جانوں کی قربانی دی، 70 کی دہائی میں قومیائی گئی صنعتوں کے باعث ترقی کو نقصان پہنچا، اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کسی کی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے ڈیووس میں بین الاقوامی میڈیا کونسل سے خطاب میں کہا ہے کہ فوری طور پر بھارت کے ساتھ جنگ کا کوئی خطرہ نہیں، ہم پرامن طریقے کیساتھ تنازعات کا حل چاہتے ہیں۔

پاکستان کی سابق حکومتوں نے امریکا سے وعدے کرکے غلطی کی تاہم اب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید بہتر ہو رہے ہیں۔ ہم امریکا کے ساتھ تجارتی تعلقات کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان افغانستان کی صورتحال سے متاثر ہوتا ہے۔ افغانستان میں امن ہوگا تو وسط ایشیا تک تجارت ممکن ہوگی۔ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کے سرحدی علاقے متاثر ہوئے۔ ہماری حکومت ان علاقوں میں بحالی کے اقدامات کر رہی ہے۔

امریکا کوافغانستان میں ناکامی ہوئی تو اس نے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ امریکا سمجھتا تھا کہ افغان مسئلے کا حل طاقت کا استعمال ہے لیکن میں نے ہمیشہ طاقت کے استعمال کی مخالفت کی۔ میرے موقف کی وجہ سے مجھے طالبان کا حامی کہا گیا۔ امریکا کو آخر کار افغان مسئلے پر مذاکرات کا راستہ نکالنا پڑا۔عمران خان کا کہنا تھا کہ مجھے پتا تھا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کیسے بہتر کیے جا سکتے ہیں کیونکہ میرے سب سے زیادہ دوست وہاں ہیں، اس لیے اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلے انڈین وزیراعظم نریندر مودی سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے میری پیشکش کا مثبت جواب نہیں دیا۔

وزیراعظم نے بتایا کہ پلوامہ حملے کے بعد میں نے کہا ثبوت دیں تو کارروائی کریں گے لیکن بھارت نے ثبوت دینے کے بجائے بمباری کر دی، اس کے بعد بھارت کے ساتھ معاملات زیادہ خراب اور کشیدگی بڑھ گئی۔ مودی کی غلط پالیسیوں سے حالات خراب ہوتے گئے۔ اب پلوامہ جیسے واقعات دوبارہ رونما ہونے کا خدشہ ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مجھے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر شدید تشویش ہے۔ مودی سرکار نے 80 لاکھ کشمیریوں کو لاک ڈاؤن میں رکھا ہوا ہے۔ مودی حکومت آر ایس ایس کے نظریے پر عمل پیرا ہے۔ اس نے انتخابی مہم پاکستان سے نفرت کی بنیاد پر چلائی۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں شدید احتجاج ہو رہا ہے، حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ بھارت دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے کارروائی کر سکتا ہے۔ اقوام متحدہ ایل او سی پر اپنے مبصرین کو کیوں نہیں بھیجتا؟

وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمیں امریکا اور بھارت کے تعلقات سے کوئی سروکار نہیں، امریکی صدر سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بات ہوئی۔ فوری طور پر پاک بھارت جنگ کا خطرہ نہیں، تاہم خدشہ ہے کہ بھارت پلوامہ جیسا حملہ کرکے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرا سکتا ہے۔ایک ارب 30 کروڑ لوگوں کا ملک انتہا پسندوں کے ہاتھ میں ہے۔ بھارت میں شہریت قانون سے حالات خراب ہو رہے ہیں۔ ایل او سی پر کشیدگی کسی بھی وقت بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔ امریکا اور اقوام متحدہ کو مسئلہ کشمیر کے حل میں کردار ادا کرنا چاہیے۔

عمران خان نے کہا کہ پاکستان سیاحوں کی جنت ہے، جہاں مذہبی سیاحت کے مقامات کو کبھی فروغ نہیں ملا، پاکستان کی سرزمین کئی قدیم تہذیبوں کا مسکن ہے، سیاحت کو فروغ دے کر ملکی معیشت کو ترقی دی جا سکتی ہے، پاکستان زراعت اور قدرتی وسائل سے بھی مالامال ہے، ملک کی صنعت میں ترقی کے لیے منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ایران، سعودی عرب میں تصادم روکنے کے لیے پاکستان نے کردار ادا کیا، افغانستان میں امن سے پاکستان کی وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی ممکن ہوگی۔

Shares: