حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی شخصیت—-از–خنیس الرحمان

0
136

بیٹھا سوچ رہا تھا کتنی دلیری سے خاتون کہہ رہی ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ منصف نہیں تھے. ابو بکر صدیق رضی اللہ منصف کیسے نہیں ہوسکتے. یارو ان سے بڑا کوئی منصف اور نبی رحمت صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے محبت کرنے والا ہے کوئی .نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم حجۃ الوداع سے واپس آئے اور مدینہ میں ذوالحجہ کے بقیہ ایام اور محرم و صفرگزارے.

لشکرِ اسامہ کو تیار کیا اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو اس کا امیر مقرر فرمایا اور انہیں بلقا اور فلسطین کی طرف کوچ کرنے کا حکم فرمایا. لوگوں نے تیاری کی اور ان میں مہاجرین اور انصار بھی تھے اس وقت حضرت اسامہ بن زید کی عمر صرف اٹھارہ سال تھی مہاجرین اور انصار میں سے کچھ لوگوں کو ان کی امارت پر اعتراض بھی تھا لیکن رسول اللہ نے اس اعتراض کو رد کردیا.

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر فرمایا اگر آج یہ لوگ اسامہ کی امارت پر اعتراض کرتے ہیں تو اس سے قبل اس کے باپ کی امارت پر بھی اعتراض کر چکے ہیں اللہ کی قسم وہ امارت کا مستحق تھا اور وہ میرے نزدیک محبوب ترین لوگوں میں سے تھا اور زید کا فرزند اسامہ اس کے بعد میرے نزدیک محبوب ترین لوگوں میں سے ہے. لوگ جہاد کی تیاری میں تھے اسی دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کا آغاز ہو گیا .آپ بیماری کی حالت میں ہیں ساتھ ساتھ اس لشکر میں شریک لوگوں کو نصیحتیں بھی کررہے ہیں.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری دن بدن بڑھتی جا رہی تھی. نماز کا وقت ہو جاتا ہے حضرت بلال اذان دیتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں ہمت نہیں کہ وہ صحابہ کو نماز پڑھائیں .آپ پیغام بھجواتے ہیں کہ ابوبکر سے کہو نماز پڑھائیں. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی نے نماز پڑھائی. اس دوران آپ صحابہ کو نصیحتیں بھی فرماتے ہیں. چند دنوں بعد آپ اس دنیا سے رخصت فرما گئے. آپ کی وفات کے بعد صحابہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اپنا امیر مقرر فرما لیتے ہیں .

منصب امارت سنبھالنے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی ترجیحات میں سب سے پہلے لشکر اسامہ کی روانگی شامل تھی. دوسری طرف وہی لوگ جنہوں نے سیدنا سامہ رضی اللہ عنہ کی امارت پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اعتراض کیا ایک بار پھر اٹھ کھڑے ہوئے اس کے ساتھ دیگر صحابہ کرام نے بھی مشورہ دیا. حالات سنگین ہیں ارتداد کا فتنہ بھی سر اٹھارہا ہے. مدینہ چاروں طرف سے غیر محفوظ ہے لشکر اسامہ کو فی الحال روک دیا جائے.

لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ سیدنا اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں لشکر ہر حال میں روانہ ہوگا. صحابہ کسی نہ کسی طریقے سے خلیفہ کو منانے میں لگےہوئے ہیں. لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ صحابہ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اس مہم میں عدم نفاذ کو بھول جائیں جس سے رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے خود تیار کیا اور انہیں آپ نے خبر دی کہ وہ عنقریب اس منصوبے کو نافذ کرکے رہیں گے اگرچہ اس تنفیذ کے نتیجے میں مرتدین مدینہ پر قابض ہو جائیں..؟..

حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ صحابہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابوبکر کی جان ہے اگر مجھے یقین ہو کہ درندے مجھے نوچ کر کھائیں گے تب بھی لشکر اسامہ کو بھیج کر رہوں گا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے اگر بستی میں میرے سوا کوئی بھی باقی نہ رہے تب بھی میں اس کو ضرور بھیج کر رہوں گا.

دوسری طرف انصار نے یہ اعتراض اٹھایا کہ کے سیدنا اسامہ بن زید کم عمر ہیں. اس لیے اس لشکر کا امیر کسی بڑی عمر کے شخص کو مقرر کیا جائے. انہوں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفۃ المسلمین کے پاس بھیجا کہ وہ اس سلسلے میں ان سے بات کریں. لیکن حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اس معاملے میں بات کرتے ہیں تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ بیٹھے ہوتے ہیں اٹھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور حضرت عمر کی داڑھی پکڑ کر فرماتے ہیں خطاب کے بیٹے ! اسامہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر مقرر فرمایا ہے اور تم مجھے حکم دےرہے ہوکہ اسے معزول کر دوں.

آپ لشکر اسامہ کو روانہ کرتے ہیں انہیں یہ کہتے ہیں کہ تم نے وہی کرنا ہے جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حکم دیا اور وہ وقت بھی آیا لشکر اسامہ فتحیاب ہوکر مدینے واپس لوٹ رہا ہے. اس کے بعد مرتدین زکوۃ اور مدعیان ختم نبوت کا قلع قمع ہوتا ہے. میں سوچ رہا تھا ابو بکر رضی اللہ عنہ کس طرح منصف نہیں ہوسکتے رسول اللہ جاچکے ہیں. صحابہ آپ کی منت سماجت کررہے ہیں کہ لشکر اسامہ کو نا روانہ کریں لیکن محب رسول اللہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو نہیں نظر انداز کرنا چاہتے تھے اور لشکر اسامہ بھیج کررہے.

یہ بلاشبہ تاریخ کا ایک غیر معمولی واقعہ ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ یہ واقعہ تاریخ کے ان غیر معمولی واقعات میں سے ہے جنہوں نے دنیا کی تاریخ بدل کر رکھ دی.تاریخ کے اس غیر معمولی واقعہ کی طرح خود سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ بھی تاریخ انسانی کی ایک غیر معمولی اور عظیم و جلیل شخصیت بن کر ابھرتے ہیں اور ثابت قدمی اور بے خوفی کے ساتھ ان کا اٹھایا جانے والا یہ قدم بھی ایسے ان گنت نتائج، عبرتوں اور حکمتوں کا حامل ہے جن پر ابھی تک کسی مورخ نے نظر ہی نہیں ڈالی،

ان پر قلم اٹھانا اور انہیں آج کی اسلامی دنیا کے تناظر میں دیکھنا تو بہت دور کی بات ہے.میں برملا یہ کہہ سکتا ہوں وہ شخص جو ہر معاملہ میں سبقت لے جانے والا تھا یہاں تک آپ کی وفات کے بعد بھی آپ کے پراجیکٹس کو آگے بڑھانے والا تھا اس شخص سے بڑا کو منصف اور عادل نہیں ہوسکتا…

حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی شخصیت
…..خنیس الرحمان…..

Leave a reply