لاک ڈاؤن کی وجہ سے آزاد کشمیر کا وہ طبقہ جو دن بھر کی کمائی کے بعد رات کا راشن لے کر اپنے بیوی بچوں کے پاس جاتا تھا، جن میں دیہاڑی دار مزدور، مستری، ٹھیلے اور ریڑھی لگانے والے غریب، اور سب سے بڑی تعداد دکاندار حضرات کی ھے، اسکے علاوہ وہ لوگ جو دیار غیر سے یہاں چھٹی آئے اور یہاں پھنس کر رہ گئے جو کہ اپنی فیملیز کے اکیلے سورس آف انکم ھیں، جن میں راقم بھی شامل ھے۔

جیسا کہ سب کو معلوم ھے کہ چند اقسام کی دکانوں کے علاوہ باقی تمام کاروبار اور کام مکمل طور پر بند کر دئیے گئے ھیں، جس سے کہ یہ تمام طبقوں کے سفید پوش لوگ شدید تر متاثر ھو رھے ھیں، اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ معاملہ کافی سنگینی اختیار کرتا جائیگا۔

اس تمام معاملہ سے قطع نظر یہ حقیقت ھیکہ آزاد کشمیر میں تعلیم کی شرح پاکستان سے بھی زیادہ ھے، سب جانتے ھیں کہ ایک معصوم غریب مزدور باپ بھی اپنی اولاد کو اچھی تعلیم دینا اپنا اولین فرض سمجھتا ھے چاھے وہ بیٹا ھو یا بیٹی، اور آجکل تعلیم، شائد روزگار یعنی کھانے پینے، پہننے اوڑھنے بچھانے، سب سے مہنگا بوجھ بن چکا ھے، (اسکی وجوھات و اسباب یہاں لکھنا تحریر کے اصل مقصد سے دوری کا سبب بن جائیگا، اسلئیے فی الوقت اسکو موقوف کرنا بہتر ھے۔

تعلیمی اداروں کو پہلے 5 اپریل تک بند کر دینے کا اعلان کیا گیا جسے کہ اب غالبا مئی کے اختتام تک بند کرنیکا حکم صادر کر دیا گیا ھے، یہ حکومت وقت کا بہت اچھا اور احسن عمل ھے کیونکہ باقی لوگوں کی نسبت بوڑھے عورتیں اور چھوٹے بچے بیماریوں کے گھیرے میں جلد آ جاتے ھیں، کیونکہ انکا ایمیون سسٹم، انکا جسمانی ڈیفینس میکینزم، یعنی کسی بھی بیماری کے خلاف لڑنے کی طاقت ان میں بقدر کم ھوتی ھے، اور اس پر یہ کہ چھوٹے معصوم بچوں کو اسکولوں میں حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق سنبھال کر چلانا بھی ایک سعی لا حاصل ھے، جسکی بہت سی وجوھات ھیں، جن میں سہولیات اور وسائل کا فقدان قابل ذکر ھیں۔
اسلئیے وقت کا تقاضا اور مصلحت اسی میں مضمر ھیکہ ھر ایک فرد انفرادی طور پر "کرونا وائرس” covid-19، نامی آفت سے بچاؤ بھی کرے، تمام احتیاطی تدابیر خود بھی اختیار کرے اور اہنے حلقہ احباب میں بھی اسکی آگاھی کو یقینی بنائے۔

اپنی تحریر کے اصل مدعا کو پیش نظر رکھتا ھوں کہ، اسکولوں اور باقی تعلیمی اداروں کی بندش کے بعد جہاں جہاں ممکن تھا تعلیمی اداروں، یونیورسٹیز و کچھ دینی درسگاھوں میں بھی اپنے شاگردوں کو آن لائن یعنی انٹرنیٹ کے ذریعے مستفید کیا گیا اور کیا جا رھا ھے، جو کہ بہت ھی اچھی بات ھے، اور یہ سلسلہ جاری بھی رھنا چاھئیے۔۔۔
مگر آج ایک بھائی سے انفارمیشن ملی کہ کچھ پرائیویٹ سکولز بھی چھوٹے بچوں، یعنی پلے گروپ، نرسری، پریپ یا اس سے بڑی کلاسز کے بچوں کو آن لائن سبق دینے کا سلسلہ شروع کرنا چاھتے ھیں، ساتھ ھی ساتھ والدین کو اسکول کی ماھانہ فیسز کی ادائیگی اور لیٹ ھونیکی صورت میں لیٹ فیس جمع کروانے کے حکم نامے بھی جاری کئیے جا رھے ھیں۔۔۔!

پہلی بات تو یہ کہ کشمیر میں نہ ھی انٹرنیٹ اس معیار کا ھیکہ ھر کوئی اسکے ذریعے ایسا کام جاری رکھ پائے اور نہ ھی عام عوام کے پاس ایسی سہولت موجود ھوتی ھے کہ وہ آن لائین چھوٹے بچوں کے لئیے ایسی سہولت کا انتطام کرپائیں۔ ایک عام دیہاڑی دار مزدور کے لئیے ایسی باتیں کوہ قاف کی کہانیوں سے زیادہ کچھ معنی نہیں رکھتیں، اور دوسری بات کہ اس لیول کے بچوں کو اگر کوئی پرائیویٹ اسکولز آن لائن کلاسز کے لئیے کہیں تو یہ منطق بھی فہم سے بالاتر ھے، اور اگر ایسا اسلئیے کرنا مقصود ھیکہ اس تمام لاک ڈاؤن کے عرصے میں بند اسکولوں کے باوجود اور بند کاروباروں کے باوجود غریب والدین سے ماھانہ بڑی بڑی فیسز لینے کے سلسلے کو جاری رکھا جائے تو ہھر یہ علم کی اشاعت نہیں محض کاروبار ھی کہلائیگا۔

عوام الناس میں اسوقت ایک طرف تو موجودہ حالات کو لے کر خوف کا عنصر پایا جاتا ھے، جو کہ ایک فطری ردعمل ھے اور دوسری بڑی تلوار اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کی سوچ کی صورت میں انکے سروں پر لٹک رھی ھے، کہ اگر یہ بندش کچھ عرصہ تک مسلسل رھی تو ایک عام آدمی اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ کیسے پالے گا، اس سوچ کو شائد آپ میں سے ھر ایک قاری ھی باآسانی سمجھ لے گا کیونکہ ھر ایک کے قرب و جوار میں ایسے سفید پوش لوگ لازم موجود ھوتے ھیں، بلکہ یہ پریشانی تو مڈل کلاس طبقے کو بھی لاحق ھے، جو کہ ھمارے بشمول معاشرے کا 95% طبقہ ھے۔ اور ان تمام بنیادی کھانے پینے اوڑھنے کے اخراجات میں شامل بند اسکولوں کی فیسز کی ادائیگی بھی ان تمام غریب عوام کے لئیے سولی پر لٹکنے سے کم نہیں، یہ تمام باتیں میں کافی لوگوں سے اس موضوع پر مکالموں کے بعد تحریر کر رھا، جن میں کچھ لوگوں کا خیال تو یہ ھے کہ بند کام و کاروبار کے دوران ھم اتنے اخراجات کسی طور نہیں اٹھا سکتے اسلئیے اہنے بچوں کو ھی اسکولوں سے ھٹا دیں۔

میں بہت سوچنے کے بعد اور بہت درد میں یہ تحریر لکھ رھا ھوں اپنے ان تمام غیور ھم وطنوں کی طرف سے جو خود جسم پر پھٹا کپڑا پہنتے ھیں لیکن اپنے بچوں بچیوں کو نئے اسکول بیگز اور یونیفارمز دلانے میں ایک دن کی بھی تاخیر نہیں کرتے، اللہ سب کے حالات پر رحم کا معاملہ فرمائیں اور سب پر اپنا خاص کرم فرمائیں۔

میری ان تمام والدین کی طرف سے یہ استدعا اور اپیل ھیکہ جب تک یہ لاک ڈاؤن کا سلسلہ جاری رھیگا اور جب تک لوگ اپنے معمول کے کام کاج اور روزگار پر دوبارہ سے رواں نہیں ھو جاتے، یہ بند اسکولوں کی فیسز کی ادائیگی کو روکا جائے، اور پرائیویٹ اداروں سے بھی گزارش ھیکہ جہاں سارا سال اور ھمیشہ یہی عوام اپنے بچوں کے درخشاں مستقبل کو لے کر آپکے ساتھ تعاون کرتے ھیں وھاں آپ بھی اس مشکل وقت میں اپنے لوگوں کے ساتھ تعاون کریں اور کم از کم جب تک یہ عارضی لاک ڈاؤن ختم ھو کر سب معمول پر نہیں آ جاتا، تب تک خدارا غریب والدین کی گردنوں ہر اسکول فیسز کے نام ہر چھریاں نہ ہھیری جائیں۔۔۔
اسکول، کالجز، اساتذہ کسی بھی قوم کے بچوں اور حتی کے والدین کے لئیے بھی رول ماڈل ھوتے ھیں، لہذا تمام طرح کی مادیت پرست سوچوں سے نکل کر آگے بڑھ کر بھلائی اور اسلامی بھائی چارے کا مظاھرہ کریں اور غریب والدین کو کم از کم بند اداروں کے دوران کی فیسز کے جال سے آزاد کریں، ھماری حکومت وقت سے بھی گزارش ھیکہ وہ بھی اس پر عملدرامد کروائے، تاکہ لوگ ریاستی ھم آھنگی میں جڑ کر مل کر ناگہانی آفات کا مقابلہ کریں۔۔۔ !!!
اللہ پاک آپ سب کا حامی و ناصر ھو، سب کو رزق حلال عطا فرمائے اور سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔

Shares: