وصالِ یار
نعیم ہاشمی
تیری چاہتیں ملی ہیں
اب اور کیا میں چاہوں
تم جو مل گئے ہو مجھ کو
اب اور کیا میں مانگوں
نہیں دل میں کوئی حسرت
نہ ہی اور کوئی چاہت
تجھے پا لیا ہے میں نے
اب اور کیا میں پاؤں
یہ بہارِ جاوداں ہے
تیرے ہی دم قدم سے
تو رہے سدا سلامت
اب اور کیا میں مانگوں
عشرت کدے میں میرے
روشن قندیل تیری
رہے نور یہ فروزاں
یہی صبح و شام چاہوں
رہے تا ابد سلامت
تیرا اور میرا تعلق
نہ میں چاہوں حورِ عینا
تیرا ساتھ ہی میں چاہوں
تیرے ہی دم سے قائم
سانسوں کی ڈور میری
تیری رضا ملے جو
پھر اور کچھ نہ چاہوں