عدم توازن کا شکار معاشرتی رویے اور سماجی تحریکوں کا کردار بقلم: محمد نعیم شہزاد

0
64

عدم توازن کا شکار معاشرتی رویے اور سماجی تحریکوں کا کردار
محمد نعیم شہزاد

انسان معاشرتی زندگی کی اکائی اور بنیاد ہے اور اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے معاشرے کی تشکیل کرتا ہے۔ فردِ واحد کے لیے ازخود زندگی کی ہر سہولت پیدا کرنا خارج از امکان ہے لہذا انسان کو دوسرے انسانوں کے ساتھ مل کر رہنے کی ضرورت پیش آتی ہے اور یوں معاشرہ تشکیل پاتا ہے ۔ ستم کی بات ہے کہ وہ معاشرہ جسے انسان اپنی ضروریات کے لئے بناتا ہے اسی انسان کی زندگی اجیرن بنا دیتا ہے۔ معاشرے میں اپنا سٹیٹس بناتا انسان ہر وقت اسی فکر میں رہتا ہے کہ

لوگ کہا کہیں گے؟

ایسا تو دستور زمانہ نہیں؟

میں کیسے معاشرتی روایات سے کٹ سکتا ہوں؟

یہی سوال انسان کے لیے حرز جاں بن کر رہ جاتے ہیں اور زندگی معاشرتی اقدار کی بھینٹ چڑھا دی جاتی ہے۔ مگر کیا ہم معاشرے کو خوش کر پاتے ہیں؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہی ہے اور سب بخوبی واقف ہیں کہ کبھی مثبت نہیں ہو سکتا تو پھر اتنی تگ و دو کیوں؟ اس سعی لاحاصل کو چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔ معاشرے کو اپنی ذات کے لیے استعمال کیجیے، اپنی ذات کو معاشرے پر قربان نہ کیجیے۔

معاشرے میں افراد کے اسی عمومی رویے سے عدم توازن پیدا ہوتا ہے اور لوگ انتہا کو پہنچ جاتے ہیں۔ انتہا کی بنا مثبت پہلو پر ہو یا منفی پہلو پر، انتہا بہرحال انتہا ہے اور زندگی کے حسن کو گہنا کر رکھ دیتی ہے۔ ایسے میں حقوق انسانی کا پر فریب نعرہ لے کر کئی نجی تنظیمیں NGOs کھڑی ہو جاتی ہیں جو انسانی حقوق کی چیمپئن ہونے کی دعویدار بن جاتی ہیں اور انسانیت کے دفاع کے نام پر اپنے اپنے ایجنڈے پر کام کرتی ہیں۔ ان تنظیموں کا منشور اور نصب العین اتنا پرکیف اور متاثر کن معلوم ہوتا ہے کہ لوگ ان کے دام فریب میں با آسانی آ جاتے ہیں اور ان کا مقصد بغیر انسانی حقوق کے حصول کے حاصل ہو جاتا ہے۔ جس سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ ان کا اصل کام انسانی فلاح و بہبود تھا ہی نہیں بلکہ محض انسانی حقوق کی ملمع کاری تھی جس کے لیے یہ تنظیمیں کوئی سنجیدہ کام کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔

معاشرے کے غلط رویوں کا علاج اسے چھوڑنے میں ہے۔یہ خود ساختہ پابندی ہے جو ہم نے اپنے اوپر مسلط کر رکھی ہے، ورنہ ہم کیا کرتے ہیں، کیسے رہتے ہیں، کسی کو ان کاموں سے دلچسپی نہیں ہے بلکہ دلچسپی ہے تو فقط اعتراض کرنے میں اور وہ یہ لوگ کرتے ہی رہیں گے خواہ آپ اس کوشش میں جان دے دیں۔

ان سب باتوں کو پڑھنے کے بعد اپنے دل سے پوچھیے، ایک تدبیر اور پلان آپ کا ہے اور آپ اس کے حصول میں سرگرداں ہیں، اور اس کے حوالے سے لوگوں کی رضا و ناراضگی کو بھی خاطر میں لاتے ہیں مگر انجام پھر لوگوں کی ناراضگی ۔ دوسری طرف ہمارا خالق اور مالک ہے، اس کی اپنی تدبیر ہے اور کتنی اعلی تدبیر ہے اور ہو گا وہی جو وہ چاہتا ہے تو کیوں نہ ہم اپنی اسی واحدہ لاشریک کی خوشنودی کی فکر کریں، جو راضی بھی ہو گا اور ہمیں بھی راضی کرے گا۔ اور آسودگی کے ساتھ اطمینان قلب بھی حاصل ہو گا۔

Leave a reply