خدمت انسانیت سے رضائے الہی کا حصول
حافظہ قندیل تبسم
اللہ تعالی نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید میں فرمایا :
"واحسنوا ان اللہ یحب المحسنین”
اور اچھائی کرو بلاشبہ اللہ تعالی اچھائی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"اگر میں اپنے بھائی کے کسی کام آ جاؤں تو یہ مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ میں اپنی اس مسجد میں ایک ماہ اعتکاف کروں۔
اور فرمایا :
"ومن کان فی حاجة اخيه ،كان الله فى حاجته”
” جو اپنے بھائی کے کام میں لگا رہتا ہے ہے اللہ اس کے کام میں لگا رہتا ہے۔”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم راستے میں چل رہے ہوتے کوئی لونڈی آپ کو ٹھہرا لیتی اور کہتی :
مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے تو آپ کھڑے ہو کر اس کی بات سنتے۔ ایسا بھی ہوتا کہ آپ اس کے ساتھ اس کے آقا کے ہاں چلے جاتے اور اس کا مسئلہ حل کراتے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے میل جول رکھتے اور ان کے مصائب و آلام پر صبر کرتے تھے آپ کا لوگوں سے برتاؤ نہایت رحیمانہ تھا آپ انہیں اور اپنے آپ کو جسد واحد سمجھتے تھے غریب کی غربت، غمزدہ کے غم، مریض کے مرض اور محتاج کی محتاجی کا احساس رکھتے تھے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بیٹھے صحابۂ کرام سے باتوں میں مشغول تھے کہ دور سے چند لوگ آتے دکھائی دیے۔ وہ فقراء و مسکین تھے جو نجد کی جانب سے آئے تھے ان کا تعلق قبیلۂ مضر سے تھا۔ ناداری کی انتہا یہ تھی کہ انہیں کپڑے سلائی کرنے کو سوئی دھاگا بھی میسر نہیں تھا اور انہوں نے کپڑے درمیان سے چاک کر کے گردنوں میں لٹکا رکھے تھے اس ایک کپڑے کے علاوہ ان میں سے کسی کے پاس کوئی تہبند، عمامہ، شلوار یا چادر نہیں تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ عریانی، تنگ دستی اور بھوک دیکھی تو آپ کا رنگ فق ہو گیا فوراً کھڑے ہوئے گھر تشریف لے گئے لیکن کچھ نہ ملا آپ اس گھر سے نکلے اور دوسرے گھر میں داخل ہوئے ادھر بھی کچھ نہیں تھا پھر مسجد کی طرف چل پڑے۔ ظہر کی نماز پڑھائی اور منبر پر تشریف فرما ہوئے۔ اللہ تعالی کی حمدوثنا بیان کی اور فرمایا :
"اما بعد، اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں فرمایا :
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی پیدا کر کے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں۔ اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناتے توڑنے سے بچو بے شک اللہ تم پر نگہبان ہے۔ (سورۃ النسآء 1)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص دیکھ لے کہ کل (قیامت) کے لیے اس نے( اعمال کا )کیا (ذخیرہ) بھیجا ہے اور (ہر وقت) اللہ سے ڈرتے رہو۔ یقیناً اللہ تمہارے سب اعمال سے با خبر ہے۔ (الحشر 18)
اسی طرح آپ آیات سنا سنا کے نصیحت کرتے رہے پھر فرمایا :
صدقہ کرو اس سے پہلے کہ تم صدقہ نہ کر سکو۔ صدقہ کرو اس سے پہلے کہ تمہیں صدقہ کرنے سے روک دیا جائے۔ ہر شخص اپنے درہم و دینار گندم اور جو کا صدقہ کرے اور کوئی صدقے کی کسی چیز کو حقیر نہ جانے۔
پھر آپ صدقے کی انوع گنواتے رہے۔ آخر میں فرمایا :
صدقہ کرو خواہ آدھی کھجور ہی کا ہو۔ اس پر انصار کا ایک آدمی اپنے ہاتھ میں ایک تھیلی لیے کھڑا ہوا اس نے وہ تھیلی منبر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑا دی۔ آپ کے مبارک چہرے پر خوشی کے آثار دکھائی دیے۔ مجلس برخاست ہوئی ۔ لوگ اپنے اپنے گھروں کو گئے اور صدقات لے کر آئے کوئی ایک دینار لے کر آیا تو کوئی ایک درہم۔ کوئی ایک کھجور لایا اور کوئی کپڑے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو ڈھیر لگ گئے۔ ایک ڈھیر کھانے پینے کی اشیاء کا اور دوسرا کپڑوں کا۔ یہ منظر دیکھ کر آپ کا چہرہ دمکنے لگا گویا چاند کا ٹکڑا ہو۔ آپ نے یہ سارا سامان انہیں فقراء میں تقسیم کر دیا۔
جی ہاں!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی ضروریات پوری کر کے ان کے دل جیت لیتے تھے۔ آپ ان کے لیے اپنا مال، اپنا وقت اور اپنی کوشش صرف کرتے تھے۔
آپ بھی لوگوں کی ضروریات پوری کر کے اور ان کے کام آ کے اس راستے سے ان کے دلوں میں داخل ہو سکتے ہیں۔ بے لوث ہو کر کام آئیں وہ آپ سے محبت کریں گے۔ آپ کے لیے دعا گو رہیں گے اور جب کبھی آپ کو ضرورت پڑے گی آپ کی مدد کو آئیں گے۔
کسی عرب شاعر نے کہا تھا :
احسن الی الناس تستعبد قلوبھم
فظالما استعبد الانسان احسان
لوگوں سے اچھائی کرو تم ان کے دلوں کو اپنا غلام بنا لو گے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ احسان انسان کو اپنا بنا لیتا ہے۔
ایک عربی کہاوت بھی اسی حقیقت کی عکاسی کرتی ہے۔
(الانسان عبد الاحسان)
"انسان احسان کا بندہ ہے ۔”
الغرض پریشان اور ضرورت مند لوگوں کی حاجت براری کر کے ہم ان کے دلوں میں گھر کر سکتے ہیں اور مالک الملک کے پسندیدہ بندوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔
بقول اقبال
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جسے خدا کے بندوں سے پیار ہو گا








