بچوں پر جنسی تشدد اور سزا، تحریر: احمر مرتضی

0
83

بچوں پر جنسی تشدد اور سزا
احمر مرتضی

بچوں سے جنسی زیادتی کا معاملہ اگرچہ کہ ایک پرانا مسئلہ ہے مگر گزشتہ کچھ سالوں بالخصوص قصور کی معصوم کلی زینب کے ساتھ جنسی زیادتی بعد ازاں سفاکانہ قتل کے بعد ملک بھر کی عوام سیاسی و سماجی اوردیگر کئی پلیٹ فورم سے اس مسئلے کے تدارک کے لیے آوازیں اٹھنا شروع ہوگئ تھی اس پر کیا پیش رفت ہوئی اس بحث میں جایں بغیر ہم اپنی اصل بات پر آتے ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی نے بچوں سے جنسی زیادتی کے حوالے سے ایک اہم بل ریاستی کابینہ سے منظور کرکے مزید کاروائی کے لیے قائمہ کمیٹی برائے قانون انصاف کو بھیج دیا ہے جہاں سے منظوری کے بعد اسے دوبارہ قانون ساز اسمبلی میں باقاعدہ ووٹنگ کے لیے لایا جایں گا اب یہ بل باقاعدہ قانون کی شکل اختیار کرتا ہے یا نہیں بعد کی بات لیکن جو دلچسپ بات ہے وہ اس بل میں تجویز کی گئی سزا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا جنسی زیادتی کرنے والے کو جنسی صلاحیت سے محروم کردیا جایں یعنی عام مفہوم میں (خصی) کردیا جایں مزید اس بل میں خصی کرنے کا طریقہ کار بھی تجویز کیا گیا جو اپنی جگہ دلچسپی کا حامل ہے کہ عدالت سے باقاعدہ منظوری کے بعد یہ عمل سرجری کے ذریعے کیا جایں اگر اس طریقے میں ملزم کی ہلاکت کا خدشہ ہوتو پھر کیسٹریشن یعنی خصی کا عمل کیمیکل کے ذریعے کیا جایں اب جیسے ہی اس بل کی گونج آزاد کے کشمیر کے ایوانوں سے اٹھی ہے انسانی حقوق کے نام نہاد اداروں کے کچھ کارکن اپنا مصنوعی رحمِ انسانیت محبتِ انسانیت اور حقوق نسواں کا نعرہ لیں کر اس کے پیچھے پڑ گئے ہے کہ
جی اس بل سے اس عورت کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی جو اس قانون کے سزا یافتہ شخص سے شادی کریں گی تف ہے ان کی ہمدردی پر کہ یورپ جو ناجائز تعلقات جنسی زیادتیاں اور دیگر جنسی جرائم میں مبتلا ہوکر اپنا بیڑہ غرق کرچکا ہے اور وہاں جنسی درندگی کو آزادی کے نام پر باقاعدہ قانونی تحفظ حاصل ہے اس بارے نا تو ان کی آوازیں نکلتی ہے نا ہی کوئی قانون سازی پر بات کرتا ہے اور جو کوئی کونے کھدرے سے آواز اٹھتی ہے تواس کا اثر ٹھنڈے لوہے پر لگائی جانے والی ضرب سے بھی کم ہوتا ہے دراصل ان جعل ساز سماجی کارکنوں یا اداروں کی پلوٹو تک بلند ہوتی چیخوں کا سبب انسانیت کی فکر نہیں بلکہ ان کی فکر وہ سرمایہ اور محنتِ غلیظ ہے جو انہوں نے مغربی گند کو دنیا بھر میں بالعموم اور بالخصوص مسلم ممالک کو ذہنی اور دیگر کئی طریقوں سے غلام اور حوس کی بھوک کا شکاربنائے رکھنے اورخود حکمران بنے رہنے کی پالیسی کے لیے کر رکھی ہے اس لیے ان کو دنیا بھر میں ایسے قوانین بالخصوص پاکستان کی حدود میں ہرگز گوارہ نہیں ہے اور اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جایں تو پھر یہ تو اس بچی کے حقوق کی تلافی بھی ہے جس کے ساتھ یہ عمل کیا جاتا ہے کیونکہ وہ بھی تو عورت ہے اس کی بھی تو شادی ہوگی کیا اس سے شادی کرنے والے مرد اور ساتھ ہی اس عورت کی تذلیل نہیں ہوگی دراصل یہ ایک ایسا جرم ہے جو ناقابل معافی ہے اور پوری انسانیت کی تذلیل ہے اور پھر کئی جرائم میں سزا کے حوالے سے یہ قاعدہ بڑا ہی مفید ہے کہ ملزم کو جان سے مار دینے یا کوئی اور سزا دینے سے بہتر ہے کہ اسے نشان عبرت بنادیا جایں تاکہ وہ ایک بار کی بجائے بار بار مرے اور لوگ اس سے عبرت حاصل کرتے رہے اور شریعی فلسفہ سزا بھی یہی ہے کہ ملزم نشان عبرت بنے اور معاشرہ جرائم و مجرمین سے پاک ہو کیونکہ “ایک ہاتھ کٹا” چور دوسرے چوروں کے لیے عبرت ہے اور ایسے ہی ایک “خصی” دوسرے مشکوک لوگوں کے لیے عبرت ہوگا اس لیے ضروری ہے کہ یہ قانون اور اس طرح کے زیادہ سے زیادہ اور سخت سے سخت قوانین نا صرف آزاد کشمیر یا پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی بنایں جایں اور ان کا سختی سے نفاذ بھی کروایا جایں کیونکہ یہ گند اور دیگر جنسی جرائم اب ایک عالمی مسئلہ ہے جس کو یورپ میں انسانی حقوق کی آڑ میں بہت زیادہ تحفظ ملتا رہا ہے مگر اب اہل یورپ بھی اس نحوست سے جان چھڑانا چاہتے ہے اور پھر اسلامی ممالک بھی اس کے وسیع اثرات کی زد میں ہے اس لیے بروقت اور فوری انصاف پر مشتمل سخت سے سخت قوانین اور ان میں تجویز کردہ سزائیں اور اس کے انسانی جسم و مزاج ،کردار،رویوں اور انسانی معاشرے پر گہرے اور تادیر اثرات سے آگاہی ہی اس مسئلے کا واحد حل ہے اور اب یہ پیشگی مطلع کردیا جاتا ہے کہ اگر یہ بل قانون کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور اس کے تحت ایک دو درندے خصی کردئے جاتے ہے تویہ ناصرف اس قبیح عمل کو روکنے میں ایک مثبت پیش رفت ہوگی بلکہ ساتھ ہی ان لوگوں کو کان بھی ہوجایں گے جو مستقبل میں ایسے ارادے بنائے بیٹھے ہے اور راقم الحروف کی ناقص رائے تو یہی کہتی ہے کہ اس بل کو قانون بنایا جایں اس کا سختی سے نفاذ ہو اور پھر اس کو پاکستان بھر میں بھی قانون کا حصہ بنایا جایں اور اگر اس کے علاوہ کوئی اور سخت قانون یعنی سزائے موت وغیرہ ہو تو وہ بھی کارگر ثابت ہوگا مقصد اس چھاپ کو اتارنا ہے اس داغ کو دھونا ہے جو ناصرف انسانیت بلکہ ہمارے اسلامی تشخص کو گدلا کرتا جارہا ہے اور پھر عالمی میڈیا کا منہ بند کرنا بھی تو اس کا مقصد ہے جو یورپی گند کو تو تہذیبی حسن بتلاتا ہے اور ہماری چھوٹی سے غلطی کا اتنا ڈھونڈرا پیٹتا ہے کہ ہمیں ناصرف جگ ہنسائی کا سامنا ہوتا ہے بلکہ اور بہت سے نقصانات اٹھانے پڑتے ہے اور آخر میں راقم الحروف کی دوبارہ تنبیہ ہے ان وحشی صفت لوگوں کو جو ایسے عمل کرتے ہے یا ان کا ارادہ بنایں بیٹھے ہے کہ “ہن ذرا تیان نال” اگر اس قانون کو آزادکشمیر سے پاس ہوکر پاکستان بھر میں پذیرائی مل گئی تو پھر آپ کے نام کے ساتھ “مستقبل کٹا” نام کا اضافہ ہوسکتا ہے اور تحریر کا اختتام اہل اقتدار کے لیے اس دعائے خیر کے ساتھ کہ اللہ انہیں سخت سے سخت قوانین بنانے اور ان کا نفاذ کرنے کی توفیق دیں۔ آمین

Leave a reply