"جان ہے تو جہان ہے”
اسد اللہ ، فیصل آباد

یہ ضرب المثل ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں لیکن اس کا حقیقی معنی صرف وہ جانتا تھا جسے کسی بیماری کا سامنا کرنا پڑتا اور وہ گزرے ہوئے وقت کو یاد کرکے سوچتا کہ وہ بھی کیا وقت تھا جب مجھ میں توانائیاں تھیں میں جوان تھا اور آج میرا توانا جسم بے جان پڑا ہے اور آج مجھے دنیا و مافیہا سے کیا لینا دینا۔ پہلے زمانے میں اس کہاوت سے بہت تھوڑے لوگ واقف تھے لیکن جیسے ہی دنیا نے کیلنڈر کا صفحہ سنہ دو ہزار بیس کیلئے پلٹا تو پوری دنیا کو ہی اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ چائنا سے سر اٹھانے والے کرونا وائرس نے دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ دنیا بھر کے ملکوں نے اپنی سرحدیں بند کردیں اور ہر طرح کی کاروباری و سفارتی سرگرمیاں دنیا بھر میں جمود کا شکار ہو گئیں۔ دنیا کے بیش تر ممالک نے انتہائی اقدام اٹھاتے ہوئے اپنے شہریوں کو گھروں تک محدود کرنے کیلئے لاک ڈاؤن حتیٰ کہ کرفیو تک لگا دیا۔ اس صورتحال میں پاکستانی حکام نے بھی ملک بھر میں لاک ڈاون لگایا جو کہ باقی دنیا کے برعکس ایک انوکھا لاک ڈاون تھا۔ باقی دنیا میں لاک ڈاون کے دوران ہر طرح کی تجارتی و معاشرتی سرگرمیوں پر سختی سے پابندی تھی لیکن پاکستان میں لاک ڈاؤن کے دوران چھپ چھپا کے کاروبار جاری رہا اور لوگ حسب معمول بے دھڑک سڑکوں پر گھومتے پھرتے رہے۔ اس دوران پولیس اور دکانداروں کے درمیان بلی چوہے کا کھیل بھی جاری رہا جس کا فائدہ پولیس کو ہوا کہ لاک ڈاؤن کے دوران دکانداروں کو کام کی اجازت کے عوض انہیں کافی کچھ ملتا رہا۔ لاک ڈاون تقریباً دو ماہ تک جاری رہا لیکن ملکی سطح پر شدید عوامی ردعمل کی وجہ سے حکومت کو لاک ڈاؤن کھولنا پڑا۔ حکومت کی جانب سے عید سے قبل کھولے گئے لاک ڈاؤن کے حولناک نتائج اب سب کے سامنے آچکے ہیں ہر روز ہزاروں لوگوں میں کرونا کی تشخیص ہو رہی ہے اور بہت سے علاقوں میں روزانہ اموات کی خبریں بھی زبان زد عام ہیں۔
اس طرح کے بہت سے واقعات بھی دیکھنے کو آئے ہیں کہ لواحقین کرونا ٹیسٹ کروانا ہی نہیں چاہتے۔ ان کے مریض نزلہ، بخار اور سانس میں دشواری جیسی پیچیدگیوں کے باوجود بھی گھروں میں پڑے رہتے ہیں اور اس طرح ایسے لاپرواہ لوگ چند دن میں ہی اپنے پیاروں کو کھو بیٹھتے ہیں۔ سوچئے کہ یہ کس قسم کا بخار ہے جس کے ساتھ مریض دو چار دن میں ہی فوت ہو جاتے ہیں۔ کیا یہ محض بخار ہی ہوتا ہے یا ان مریضوں کی موت میں کرونا کا بھی عمل دخل بھی ہے۔
حال ہی میں ایک واقعہ میرے علم میں آیا کہ ایک مریض کو انجیکشن لگا کر مار دیا گیا ہے۔ ایسے واقعات پہلے بھی نظر سے گزرے تھے لیکن جب یہ واقعہ میرے خود کے حلقہ احباب میں ہوا تو اس کی تہہ تک جانے کی ٹھانی۔ تھوڑی تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ ایکٹمرا نامی انجیکشن فی الوقت سب سے اچھا علاج مانا جاتا ہے جو اس وقت کرونا کے مریضوں کے علاج کیلئے امید کی آخری کرن بن چکا ہے۔ یہ انجیکشن جس کی قیمت کافی زیادہ ہے سرکاری ہسپتالوں میں مفت بھی لگایا جاتا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں یہ انجیکشن مفت ملتا ہے لیکن پرائیویٹ ہسپتالوں میں جب کوئی کرونا کا مریض آتا ہے تو اسے عالمی تجاویز کے مطابق یہی انجیکشن تجویز کر دیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اس انجیکشن کی فی الوقت قیمت ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ہے۔ آجکل ہماری عوام اپنے مریضوں کو سرکاری ہسپتال لے جانے سے ڈرتے ہیں اور جب وہ اپنا مریض پرائیویٹ ہسپتال میں داخل کرواتے ہیں تو ڈاکٹروں کی جانب سے باقی ادویہ کے ساتھ انجیکشن بھی منگوائے جاتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بلڈ پلازمہ لگانے کی تجویز بھی دی جاتی ہے۔ یہ انجیکشن اس وقت پاکستان میں بری طرح کمیاب ہوچکا ہے اس لئے اس کی تلاش میں مریض کے ورثاء پہلے خود جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں، سوشل میڈیا پر لوگوں سے، شہر بھر کی فارمیسی والوں سے اور آخر میں ہول سیل کی بلیک مارکیٹ مافیا والوں سے منتیں کرتے ہیں کہ یہ انجیکشن ہمیں ہر صورت چاہیے۔ زیادہ تر کو وہ مارکیٹ سے نہیں ملتا کیونکہ یہ انجیکشن صرف کرونا کیلئے مختص ہسپتالوں کو دیا جا رہا ہے مریض کے لواحقین کو جب یہ انجیکشن نہیں ملتا تو ہسپتال انتظامیہ خود سے اس انجیکشن کا انتظام کرکے مریض کو لگا دیتی ہے۔ جب سے ٹیکہ لگا کر مارنے کا معاملہ زور پکڑنے لگا ہے تب سے اکثر پرائیویٹ ہسپتال کے ڈاکٹر یہ انجیکشن لگانے سے پہلے ورثا سے اجازت نامے پر دستخط بھی لینے لگے ہیں تاکہ ورثاء کو علم ہو کہ دراصل ان کے مریضوں کو لگائے جارہے انجیکشن اور ادویہ کونسی ہیں اور یہ ادویہ انکے مریض کی بہتری کیلئے لکھی جاتی ہیں ناکہ اس میں ڈاکٹرز کا کوئی ذاتی فائدہ و لالچ ہے۔
ایسے لوگ جو اپنے مریضوں کو پرائیویٹ ہسپتالوں میں لے جاتے ہیں انہیں یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیئے کہ ہر پرائیویٹ ہسپتال کا یومیہ بل پانچ سے دس ہزار تک ہوسکتا ہے جو کہ عام فہم و معمول کی بات ہے اور جب یہی مریض انتہائی نگہداشت میں منتقل کیا جاتا ہے تو ہر دن کا بل دوگنا سے بھی کہیں بڑھ جاتا ہے۔ اس صورتحال میں ہوتا یہ ہے کہ قریب المرگ مریض جوکہ مقامی طور پر تمام ٹوٹکے اور تمام حربے آزما کر ہسپتال میں لایا گیا ہوتا ہے وہ چار پانچ دن انتہائی نگہداشت میں رہنے کے بعد اپنی سانسوں کی روانی کھو دیتا ہے۔ جیسے ہی مریض مرتا ہے، زہر کے ٹیکے کا اصل کھیل شروع ہو جاتا ہے۔
مریض کے مرنے کے فوراً بعد پرائیویٹ ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے ڈیڑھ دو لاکھ کے ایکٹمرا انجیکشن اور آئی سی یو چارجز کے ساتھ چار پانچ لاکھ کا بل ورثاء کو تھمایا جاتا یے اور اس بل کو دیکھتے ہی ورثاء واویلہ شروع کر دیتے ہیں کہ ڈاکٹروں نے ٹیکہ لگا کر ہمارا مریض مار دیا اور اب یہ ڈاکٹر ہم سے میت کے پانچ لاکھ مانگتے ہیں۔ سستی شہرت کے متلاشی سوشل میڈیائی ہیرو جو آجکل ہر جگہ وافر موجود ہیں وہ اپنا موبائل کیمرہ لے کر میدان میں آ ٹپکتے ہیں اور رپورٹنگ کر کے عوام کو گمراہ کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ دیکھئے اس مریض کے ورثاء سے میت کے پانچ لاکھ مانگے جارہے ہیں یہ لوگ اچھا بھلا مریض لے کر آئے تھے اور ڈاکٹروں نے ہمارے مریض کو زہر کا ٹیکہ لگا کر مار دیا ہے۔ ہماری بھولی بھالی عوام اس متوفی کے غم میں یہ بات بھول ہی جاتی ہے کہ اگر یہ اچھا بھلا بندہ تھا تو ہسپتال لایا ہی کیوں گیا اور اگر مریض کے ورثاء مہنگے علاج کی سکت نہ رکھتے تھے تو مہنگے ہسپتال میں لے کر ہی کیوں گئے؟
میں یہ نہیں کہتا کہ پرائیویٹ ہسپتال والے دودھ کے دھلے ہیں لیکن یہ بات تو ہر کسی کو پتہ ہے کہ پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج سستا نہیں ہے۔ سرکاری ہسپتال میں داخل ہونے والے مریضوں کا مفت علاج اور مفت کرونا ٹیسٹ کیا جاتا ہے لیکن ڈر کے مارے لوگ اپنے مریضوں کو سرکاری ہسپتال لے جانا ہی نہیں چاہتے
اور جب پرائیویٹ ہسپتال میں مریض مرجاتا ہے تو لواحقین پرائیویٹ ہسپتال کے اس بل سے جان خلاسی کروانا چاہتے ہیں۔
اب تک سوشل میڈیا پر ایسی جتنی بھی ویڈیوز دیکھنے میں آئیں جن میں مبینہ طور پر میت کے بدلے پانچ لاکھ کا تقاضہ یا ذہر کا ٹیکہ لگانے کی جذباتی رپورٹنگ کی گئی اس کا کوئی سر پیر نہیں ملتا اور ان رپورٹروں کا بھی کوئی اتہ پتہ نہیں۔ ایک نجی ٹی وی چینل کے نام والے لوگو کے ساتھ وائرل ہوئی ویڈیو کے بابت جب اس چینل سے رابطہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ وہ شخص نہ تو انکا نمائندہ ہے اور نہ ہی انکا ادارہ اسے جانتا ہے۔
یہ وقت غلط خبریں پھیلانے کا نہیں ہے کیونکہ کرونا کا مرض اس وقت ملک پاکستان میں اس قدر پھیل چکا ہے کہ اب ہر خاص و عام اس کی لپیٹ میں ہے لیکن عوامی غفلت اپنے عروج پر ہے۔ لوگ ڈر کے مارے اپنے مریضوں کا ٹیسٹ نہیں کرواتے بلکہ کرونا کی تمام تر علامات ظاہر ہونے کے باوجود مریض کو گھر پر ہی رکھے رکھتے ہیں اور جب صورتحال قابو سے باہر ہو جاتی ہے تو ہسپتال کا رخ کرتے ہیں اور جب انکا مریض جان سے جاتا ہے تو اپنی لاپرواہی و غفلت کی خفت مٹانے کیلئے کہنے لگتے ہیں کہ ہمارے مریض کی رپورٹ تو نیگیٹو تھی۔
شروع شروع میں کرونا کے وجود سے انکاری عوام کو اب سمجھ آجانی چاہیے کہ اس وقت ملک میں ہر روز کرونا کیسز کا ریکارڈ پر ریکارڈ بن رہا ہے۔ صرف گزشتہ 24گھنٹوں میں 6ہزار 825 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں اس طرح ملک بھر میں کورونا کیسز کی تعداد ایک لاکھ 39ہزار 230 ہوچکی ہے جبکہ اس موذی وائرس سے اب تک 2632 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کرونا کے نئے کیسز کے لحاظ سے پاکستان دنیا بھر میں چھٹے نمبر پر آ چکا ہے اور ایکٹیو کیسز کے لحاظ سے بھی پاکستان چھٹے نمبر پر ہے۔
یاد رہے کہ دسیوں پاکستانی ڈاکٹرز اب تک اس مرض سے لڑتے لڑتے اپنی جان دے چکے ہیں اور سیکڑوں ڈاکٹر اس وائرس کا شکار ہیں۔ اس وقت ڈاکٹر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ہمارے مریضوں کا علاج کرنے میں لگے ہیں لیکن ہماری ذہنی پستی کا یہ عالم ہے کہ ہم انہی ڈاکٹروں پر ڈالر لینے اور ٹیکہ لگا کر مارنے جیسے بے تکے الزامات لگاتے ہیں۔ ہم میں سے ہر کسی کے حلقہ احباب میں کئی ڈاکٹر ہوں گے زرا آنکھیں بند کر کے دل پر ہاتھ رکھ کر ان ڈاکٹروں کے متعلق سوچئے کہ ان میں سے کون ایسا ہے جو کسی دکھی شخص کی جان اپنے ہاتھوں سے لینے کی ہمت رکھتا ہو؟ کون اتنا سنگدل و ظالم ہے جو کسی کو ذہر کا ٹیکہ لگا سکتا ہو؟
پانچ لاکھ کا شور تو سنتے ہیں لیکن پانچ لاکھ دے کر میت لانے والا کوئی شخص ملے تو ہمیں بھی بتائیے یا کوئی شخص مجھے اس بات کا ثبوت ہی لا دے کہ ان ڈاکٹروں کو کسی کی جان لینے پر ڈالرز کہاں سے ملتے ہیں تاکہ اپنی جیب سے ماسک اور حفاظتی لباس خریدنے والے تمام ڈاکٹروں کو ان ڈالروں کا پتہ چل سکے۔
خدارا کوشش کیجئے کہ مایوسیوں اور افراتفری کے اس دور میں آپکی پھیلائی ہوئی کسی خبر کی وجہ سے کسی کا نقصان نہ ہو جائے۔ کوئی بھی خبر ہو اس کی جانچ کیجیے، اس کو ہر طرح سے پرکھئے اور یہی قرآن کا اسلوب ہے کہ:
اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ۔
(سورہ الحجرات آية : 6)

Shares: