باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کافیصلہ محفوظ کرلیا

دوران سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ہم اللہ کےسامنے جوابدہ ہیں ،ہم آئین اورقانون کے پابند ہیں،اپنا کام آئین اورقانون کے مطابق کریں گے،

جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ججزکااتفاق ہواتوشام 4 بجےفیصلہ سنائیں گے،

سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف صدارتی ریفرنس کی کارروائی رکوانے کیلئے آئینی درخواستوں پر سماعت کے دروان ایف بی آر نے قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا ٹیکس ریکارڈ سر بمہر لفافے میں جمع کرایا۔ قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل نے بھی سر بمہر لفافے میں دستاویزات پیش کیں۔

بنچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ابھی اس پر کوئی آرڈر پاس نہیں کریں گے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ تمام دستاویز ریکارڈ پر لاچکی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے فروغ نسیم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ اس کی تصدیق کرائیں۔

منیر اے ملک نے جواب الجواب دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سمجھ نہیں آرہی کہ حکومت کا اصل میں کیس ہے کیا۔افتخار چوہدری کیس میں سپریم جوڈیشل کونسل پر بدنیتی کے الزامات تھے، سپریم جوڈیشل کونسل نے بدنیتی پر کوئی فیصلہ نہیں دیا تھا۔ توقع ہے مجھے جوڈیشل کونسل کی بدنیتی پر بات نہیں کرنا پڑے گی۔ جسٹس قاضی فائز نے اہلیہ کی جائیدادیں خود سے منسوب نہیں کیں۔

منیر اے ملک نے عدالت میں کہا کہ الیکشن اور نیب قوانین میں شوہر اہلیہ کے اثاثوں پر جواب دہ ہے۔ فروغ نسیم نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز نے سپریم کورٹ آنے میں دیر کردی۔ بدقسمتی سے فروغ نسیم غلط بس میں سوار ہوگئے ہیں۔ حکومت ایف بی آر جانے کے بجائے سپریم جوڈیشل کونسل آگئی۔ ایف بی آر اپنا کام کرے ہم نے کبھی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اپنی اور عدلیہ کی عزت کی خاطر ریفرنس چیلنج کیا۔

منیر اے ملک نے کہا کہ ہ ہم چاہتے ہیں کہ عدلیہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف ریفرنس کالعدم قرار دے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کے احکامات اور شوکاز نوٹس میں فرق ہے۔ فروغ نسیم نے کہا کہ ان کا اصل کیس وہ نہیں جو ریفرنس میں ہے۔ عدالت میں برطانوی جج جسٹس جبرالٹر کی اہلیہ کے خط اور ان کی برطرفی کا حوالہ دیا گیا۔ جسٹس جبرالٹر نے خود کو اہلیہ کی مہم کے ساتھ منسلک کیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کبھی اہلیہ کی جائیدادیں خود سے منسوب نہیں کیں۔ الیکشن اور نیب قوانین میں شوہر اہلیہ کے اثاثوں پر جواب دہ ہوتا ہے۔

قانون آرڈیننس کے ذریعے بنانے ہیں تو پارلیمان کو بند کر دیں،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریمارکس

جوڈیشل کونسل کے خلاف سپریم کورٹ کا بینچ تحلیل

کسی جج پر ذاتی اعتراض نہ اٹھائیں، جسٹس عمر عطا بندیال کا وکیل سے مکالمہ

ججز کے خلاف ریفرنس، سپریم کورٹ باراحتجاج کے معاملہ پر تقسیم

حکومت نے سپریم کورٹ‌ کے سینئر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر دیا

حکومت نے یہ کام کیا تو وکلاء 2007 سے بھی بڑی تحریک چلائیں گے،وکلا کی دھمکی

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی میدان میں‌ آگئے، ریفرنس کی خبروں‌ پر صدرمملکت کوخط لکھ کر اہم مطالبہ کر دیا

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جائیداد کے اصل مالک ہیں یا نہیں؟ اٹارنی جنرل نے سب بتا دیا

صدارتی ریفرنس کیس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ پیش ہو گئے،اہلیہ کے بیان بارے عدالت کو بتا دیا

منافق نہیں، سچ کہتا ہوں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ،آپ نے کورٹ کی کارروائی میں مداخلت کی،جسٹس عمر عطا بندیال

منیر اے ملک نے کہا کہ حکومتی وکیل کی طرف سے کہا گیا کہ افتخار چوہدری کیس میں شوکاز نوٹس جاری نہیں ہوا تھا۔ اول تو آرٹیکل 209 میں شوکاز نوٹس کا ذکر ہی نہیں۔ دوسرا یہ کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے افتخار چوہدری کو طلبی کا نوٹس جاری کیا تھا۔ سپریم جوڈیشل کونسل صدر کے کنڈکٹ اور بدنیتی کا جائزہ نہیں لے سکتی۔ سپریم جوڈیشل کونسل کا کام صرف حقائق کا تعین کرنا ہے۔

جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ شوکاز نوٹس کے بعد جوڈیشل کونسل کو آئینی تحفظ کا سوال بہت اہم ہے۔ جسٹس یحیٰی آفریدی نے سوال کیا کہ شوکاز نوٹس کے جواب کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیوں کیا گیا ،منیر اے ملک نے جواب دیا کہ جو ریلیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو چاہیے وہ سپریم جوڈیشل کونسل نہیں دے سکتی۔ انھوں نے اپنے دلائل کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کو کوئی نیا ادارہ یا ایجنسی بنانے کا اختیار نہیں۔ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی تشکیل کے لیے رولز میں ترمیم ضروری تھی۔ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کے ٹی او آرز قانون کے خلاف ہیں۔ باضابطہ قانون سازی کے بغیر اثاثہ جات ریکوری یونٹ جیسا ادارہ نہیں بنایا جاسکتا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدراتی ریفرنس کیخلاف دائر درخواست پر روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہوئی، گزشتہ روز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے ویڈیو لنک کے ذریعہ بیان ریکارڈ کروایا تھا،اہلیہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا ہے کہ جائیداد خریدنے کے لیے سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک کے ذریعے 7 لاکھ پاؤنڈ بیرون ملک منتقل کیے گئے ۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے ویڈیو لنک پر بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا کہ میرے خاوند نے مجھے کہا ریفرنس میرے متعلق نہیں ،میرے لیے یہ بڑا مشکل وقت تھا ،میرے والد قریب المرگ ہیں ، میری شادی 25 دسمبر 1980 ء کو ہوئی ، اس دوران فاضل جج کی اہلیہ نے اپنا برتھ سرٹیفکیٹ اور اپنا پرانا شناختی کارڈ بھی دکھاتے ہوئے کہاکہ میرا نام سرینا ہے ،1983 ء میں مجھے نہیں معلوم تھا کہ 21 سال بعد لندن میں جائیداد خریدوں گی ، شادی کے 21 سال بعد میں نے لندن میں جائیداد خریدی، میرا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ 2003 ء میں بنا، اُس وقت میرے خاوند جج نہیں تھے ، میرا ویزا ختم ہوا تو نئے ویزے کے لیے اپلائی کر دیا، دوسرا ویزا جب جاری ہوا وہ سپریم کورٹ کے جج نہیں تھے ۔جنوری 2020 ء میں مجھے صرف ایک سال کا ویزا جاری ہوا،یہ ویزا جاری کرنے سے پہلے ہراساں کیا گیا،مجھے ہراساں کرنے کے لیے کم مدت کا ویزا جاری کیا گیا۔

سرینا عیسیٰ کا بیان سننے کے بعد سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ کے سربراہ نے کہا ہے کہ عدالت اس حوالے سے ان کے بیان اور جائیداد کی خریداری کے ذرائع سے بھی مطمئن ہے ، تاہم اس پر فیصلہ متعلقہ اتھارٹی نے ہی کرنا ہے ۔ جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی طرف سے منی ٹریل اور آمدن کے ذرائع پر مکمل اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ اس معاملے کو میرٹ پر نہیں دیکھ سکتے ، جب کہ سرینا قاضی کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ میرٹ پر معاملہ دیکھنے کے لیے آپ کو انکم ٹیکس یا پھر سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس جانا ہو گا۔

یاد رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ وہی سینئر جسٹس ہیں‌ جنہوں نے جسٹس مشیر عالم کے ہمراہ فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ سنایا تھا. اس فیصلے میں‌ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد اور بعض‌ دوسری حکومتی شخصیات کے کردار سے متعلق بھی سوالات اٹھائے گئے تھے. اس فیصلہ کے خلاف پاکستانی وزارت دفاع نے بھی سپریم کورٹ‌ میں‌ نظر ثانی کی اپیل دائر کی تھی جس میں‌ استدعا کی گئی تھی کہ مذکورہ فیصلہ سے پاک فوج سے متعلق استعمال ہونے والے الفاظ حذف کیے جائیں۔

Shares: