کیا صرف سیاہ فاموں کی زندگی اہمیت رکھتی ہے
(امریکہ میں ایک سیاہ فام کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت پر "بلیک لائیوز میٹر” تحریک بپا ہوئی، مگر کیا کشمیر اور ہندوستان میں جاری ہندتوا کسے متاثر افراد کی زندگیاں بھی کچھ اہمیت رکھتی ہیں ؟ )
صدائے اسد، از: اسد عباس خان
کون جانتا تھا کہ جدید ترقی یافتہ اور تیز رفتار دنیا کھلی آنکھوں سے نظر تک نہ آنے والے حقیر سے وائرس کے سامنے بے بس ہو کر یوں رک جائے گی کہ تمام معمولات زندگی معمول سے ہٹ جائیں گے۔ باقی سب معاملات کی طرح کھیل اور کھلاڑی بھی اس وباء کے بھنور میں پھنس گئے۔ پاکستان سپر لیگ کا سپر ہٹ میلہ عین اس وقت روک دینا پڑا جب ٹاکرے اپنی انتہاؤں کو چھو رہے تھے۔ کھیل کو اپنے گھر "پاکستان” میں دیکھنے کی آس میں برسوں سے ترسے ہوئے پرجوش تماشائیوں کی امیدوں کے چراغ اس وقت گل ہوۓ جب کسی چیمپئن کا فیصلہ تک نہ ہو سکا۔ تمام قومی اور بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلے پابندی کا شکار ہوئے تو کھلاڑیوں سمیت شائقین بھی اپنے اپنے اہل و عیال کے ساتھ گھروں میں قید ٹھہرے۔ کھیلوں کے تمام بڑے بڑے ایونٹ مؤخر یا پھر کینسل کر دیئے گئے۔ باقی کھیلوں کے برعکس کرکٹ کا کھیل حفاظتی انتظامات کے حوالہ سے پیچیدہ اور مشکل ترین ہے لہذا اس کھیل کی بحالی کے لیے اس کے بنیادی قوانین میں کئی تبدیلیاں لائی گئیں۔ کرکٹ کے جد امجد انگلستان اور ویسٹ انڈیز کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان ٹیسٹ میچز کی سیریز نئے قوانین اور حفاظتی ایس او پیز کے ساتھ شروع ہو چکی ہے۔ تقریبا چار ماہ کے وقفے کے بعد کھیل کا میدان بغیر تماشائیوں کے سج گیا۔ لیکن اس دوران ایک عجیب معاملہ پیش آیا کھلاڑیوں کے ذہنوں پر کورونا کی وبا کے ساتھ ساتھ نسلی تعصب کے خلاف بین الاقوامی مہم ’بلیک لائیوز میٹر‘ بھی چھائی ہوئی تھی۔ میچ کے آغاز پر کھلاڑی جب میدان میں اترے تو ویسٹ انڈیز کے کھلاڑیوں نے ہاتھ میں کالا دستانہ پہنا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں نے سیاہ فام افراد کے ساتھ پیش آنے والے امتیازی سلوک اور نسل پرستی کے خلاف گھٹنا ٹیک کر کھیل کا آغاز کیا۔ ویسٹ انڈیز کے کھلاڑیوں نے اپنا ایک ہاتھ اٹھا کر ’بلیک پاور سلوٹ‘ بھی کیا۔ امریکہ میں چھ ہفتے قبل سیاہ فام شخص "جارج فلائیڈ” کی پولیس حراست کے دوران ہلاکت اور اس کے بعد امریکہ سمیت دنیا بھر میں ہونے والے عوامی مظاہروں کی گونج گراؤنڈ میں بھی سنائی دے رہی تھی۔ اور کمنٹری کرنے والے ماہرین نے بھی سیاہ فام اقلیت کے خلاف نسلی تعصب کے خلاف آواز اٹھائی جسے پوری دنیا میں سراہا گیا۔ یہ منظر دیکھ کر میرا حافظہ ایک سال پیچھے چلا گیا۔ پچھلے سال ہندوستانی کرکٹ ٹیم نے آسٹریلیا کے خلاف رانجی میں کھیلے جانے والے ایک روزہ بین الاقوامی کرکٹ میچ میں روایتی نیلے رنگ کے بجائے ہندوستانی فوج کی ٹوپی استعمال کی۔ جو بظاہر کشمیری حریت پسندوں کے حملے میں مارے جانے والے قابض ہندوستانی فوجیوں سے علامتی اظہار یکجہتی تھی۔ اس ٹوپی پر بی سی سی آئی کا آفیشل لوگو بھی بنا ہؤا تھا۔ لیکن میں سوچ میں پڑ گیا کہ کرکٹ جیسے مہذب اور شرفاء کے کھیل میں بھی آئی سی سی اور باقی دنیا کا دوغلہ پن کیوں عیاں ہوتا ہے۔ 2014ء جولائی کے مہینے میں ہی انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی جانب سے انگلش کرکٹر معین علی پر اس وقت پابندی عاید کر دی گئی جب وہ ہندوستان کے خلاف تیسرے ٹیسٹ میچ کے دوران غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت میں رسٹ بینڈ پہن کر میدان میں اترے جس پر محض سیو غزہ اور فری فلسطین لکھا ہوا تھا۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے معین علی کو خبردار کیا کہ وہ فلسطین کی حمایت والے رسٹ بینڈ نہیں پہن سکتے کیونکہ یہ کوڈ آف کنڈیکٹ کی خلاف ورزی ہے۔ آئی سی سی نے مزید کہا کہ قوانین کے مطابق کسی بھی پلیئر کو انٹرنیشنل میچز کے دوران جرسی یا دیگر چیزوں پر سیاسی، مذہبی یا نسلی بیانات دکھانے کی اجازت نہیں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نسلی تعصب اور ظلم کا سب سے زیادہ شکار تو مسلمان ہیں لیکن ان سے ہمدردی قوانین کی خلاف کیونکہ ٹھہرتی ہے؟ کیا انسان صرف وہ گورے یا کالے ہی ہیں جو مسلمان نہیں ؟ کیا مذہب کی بنیاد پر رواء رکھے جانے والے تعصب اور غیر انسانی سلوک کے خلاف آواز اٹھانا قوانین کے خلاف ہے؟ پاکستان کرکٹ ٹیم بھی ان دنوں انگریزوں کے دیس میں موجود ہے۔ اور چند ہفتوں بعد اسی انگلینڈ ٹیم سے مقابلے میں اترے گی جو ویسٹ انڈیز کے کالے کھلاڑیوں کے ساتھ مل کر کالے افراد کے خلاف نسلی تعصب کے معاملہ میں مکمل یکجہتی کا اظہار کر رہی تھی۔ اگر ٹیم پاکستان مقبوضہ کشمیر سمیت پورے ہندوستان میں ہندؤ توا کے شکار مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرے یا ہندوستانی ریاستی جبر اور پاکستان میں حالیہ دہشتگردی کی کاروائیوں کے خلاف کوئی آواز اٹھاتی ہے تو کیا یہی گورے ہمارے ساتھ بھی کندھے سے کندھا ملائیں گے؟ امریکی شہر مینا میں پولیس کے ہاتھوں مارے جانے والے سیاہ فام جارج فلائیڈ نے تو کھلاڑیوں کے گھٹنے ٹکوا دیئے کیا
مقبوضہ کشمیر کے علاقے سوپور میں ہندوستانی فوج کی فائرنگ سے شہید ہونے والے بشیر احمد کے سینے پر بیٹھا ہوا ان کا تین سالہ نواسا بھی کسی مہذب کھیل اور کھلاڑی کو نظر آۓ گا؟
یا آئی سی سی کے قوانین آڑے آئیں گے؟ کیونکہ تاریخ یہی ہے کہ انسانیت کے سینے میں مسلمان مظلوموں کے لیے کوئی دل نہیں ہے۔








