نظریہ پاکستان کا تحفظ، روشن پاکستان کی ضمانت تحریر: شعیب بھٹی

0
113

نظریہ پاکستان کا تحفظ، روشن پاکستان کی ضمانت
شعیب بھٹی

میں ریاست پاکستان کا باشندہ ہو۔ یہ ریاست نظریہ اسلام کی بنیاد پر وجود میں آئی تھی۔ میرے لڑکپن میں اس اسلامی ریاست میں مارشل لا کا راج تھا کشمیر میں جہاد کرنے والے اور جہاد کے نام لیوا لوگ پابند سلاسل تھے۔ اسلامی ریاست میں موجود مساجد پر پابندیاں لگائی جارہی تھیں۔ مساجد سے صبح فجر کے وقت قرآن کے دروس کی آواز فضا کو معطر کردیتی تھی مگر یہ آواز فرقہ ورانہ انتشار کے نام پر بند کردی گئی ۔ مارشل لا کا وقت گزرا تو بینظیر کے قتل کے بعد عوام سے مظلومیت کا ووٹ لیکر پیپلزپارٹی برسر اقتدار آ گئی ۔ ان کے دور میں بھی میں نے جہاد کے نام لیوا لوگوں کو پابند، لسلاسل دیکھا۔ یہ حکومت خالص امریکی غلام تھی اس دور میں آرمی چیف کو عدالت میں بلاکر بیان حلفی لیا گیا کہ چاہے جو بھی حالات ہوں آپ مارشل لا نہیں لگائیں گے۔ اسی زرداری حکومت میں سلالہ چیک پوسٹ کا واقعہ ہوا۔ انہیں کے دور میں امریکی فورس پاکستانی علاقوں میں داخل ہوئی اور ایبٹ آباد کا شرمناک واقعہ رونما ہوا۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی اور حسین حقانی جیسے غدار اسی حکومت کے دور میں پرورش پا رہے تھے اور زرداری حسین حقانی کو فرار کرانے میں بھی پیش پیش تھا اسی پیپلز پارٹی نے جب ایک مذہبی جماعت نے تھر کے ریگستانوں میں فلاحی کام کیے اور ہندوؤں کی بھی بلا تفریق مذہب مدد کی تو نوجوان ہندو متاثر ہوکر اسلام قبول کرنے لگے۔ تب اس پیپلزپارٹی نے بیرونی آقاؤں کی ایما پر سندھ میں ایک بل پاس کیا کہ 18 سال سے کم عمر شخص اسلام قبول نہیں کرسکتا۔ میں حیران تھا کہ یہ کیسی اسلامی ریاست ہے۔ جوانی میں قدم رکھا شناختی کارڈ کا حامل قرار پایا۔ تو نواز شریف کو برسر اقتدار پایا۔ نواز شریف کے بارے سنتا تھا کہ یہ شخص مذہبی رجہان رکھتا ہے مگر یہ کیا اس نواز شریف نے ہندوؤں کی ہولی میں شرکت کی اور اس ریاست کے نظریہ کی دھجیاں اڑا دی جس ریاست کا وہ خود سربراہ تھا۔ نواز شریف نے کہا کہ ہندو مسلم میں کوئی فرق نہیں نواز شریف نے نظریاتی سرحد کو نفرت کی باڑ قرار دیا۔ اسی نواز شریف کے دور میں ختم نبوت ﷺ کے قانون پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ۔ مسلم لیگ کے اس سربراہ نے قادیانیوں کو بھائی قرار دیا۔ اسی مسلم لیگ کے دور میں غیر ملک کا وزیراعظم پاکستان میں بغیر ویزا کے داخل ہوا۔ جب اس ملک کے خدمت گار کو ملک سے بے وفائی اور کرپشن کے الزام میں اقتدار سے اتارا گیا تو دشمن کے پاکستان کو دہشتگرد قرار دینے کے لیے لگائے گئے ممبئی حملوں کے الزام کو درست کہا۔ یہ اسلامی ریاست تھی اور برسر اقتدار پارٹی مسلم لیگ تھی کہ عورت کے حقوق کے نام پر غیر اسلامی غیر آئینی بل پاس کیا گیا اور مرد کو محکوم بنانے کی کوشش کی گئی ۔ اسی مسلم لیگ کی حکومت میں مندروں کی تزئین و آرائش کی گئی ۔ اور ایک نئے مندر کے لیے زمین بھی الاٹ کی گئی ۔ اب ایک دفعہ پھر سے ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قومی و صوبائی الیکشن ہونے جارہا تھا۔
تبدیلی کے نام پر سابق کرکٹر عمران خان کی پارٹی کو مقبولت حاصل تھی اور میں بھی اس دفعہ اپنا پہلا ووٹ کاسٹ کرنے جا رہا تھا مجھے بتایا گیا تھا کہ ووٹ ضمیر کی آواز ہوتا ہے اور قوم کی امانت ہوتا ہے۔ میں نے ووٹ قوم کی امانت سمجھ کر اور ضمیر کی آواز سمجھ کر کاسٹ کیا اور انتخابی نشانات کو غور سے دیکھا اور ہر ایک کے کردار کو سامنے رکھ کر ووٹ کاسٹ کیا۔ اس انتخابی مرحلے کے بعد عمران خان نے ریاست اسلامی کا اقتدار سنبھالا۔ پاکستان میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی حرکتوں کے بعد لوگوں کی امیدیں اب عمران خان سے وابستہ تھی لیکن یہ کیا عمران خان نے اپنا مشیر خزانہ ایک قادیانی کو تعینات کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔ عوامی دباؤ کی وجہ سے اس کو ہٹانا پڑا۔ لیکن پھر کیا دیکھتا ہوں کہ قوم کے آئیڈیل شخص کے دور میں فلاحی اور رفاحی اداروں کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کے نام پر حکومتی تحویل میں لے لیا جاتا ہے جنہوں نے تھر سے آوران تک اور کراچی سے خیبر تک قوم کی خدمت کی ہے۔ ان رہنماؤں کو بھی قید کردیا جاتا ہے۔ ابھی حکومت کو بنے ایک سال ہوتا ہے کہ یہ حکومت بھی سابقہ حکومتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ختم نبوت ﷺ کے قانون میں ترمیم کے لیے تیار ہوجاتی ہے اور مرتد اور واجب القتل لوگوں کو ایک مذہب تسلیم کرنے کی تیاری کرلیتی ہے لیکن عوامی دباؤ پر یہ قانون بھی روک لیا جاتا ہے اس تبدیلی حکومت کے لوگ لبرل اور عورت مارچ کو سپورٹ کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ دو سال کا عرصہ ہوتا ہے کہ یہ حکومت مندر کی تعمیر کے لیے فنڈ منظور کرلیتی ہے۔ میں نے بچپن سے لڑکپن، لڑکپن سے جوانی کا عرصہ یہ دیکھتے گزارا کہ اس ریاست میں بننے والی حکومت ریاست کے نظریہ کے خلاف جا کر بیرونی آقاؤں کی تابعداری فرض سمجھتی ہے۔ میں نے اس عرصہ میں کسی کو پاکستانیت کی خاطر متحد نہیں دیکھا ہر پارٹی اپنے ایجنڈے اور مفادات کو ملک و قوم سے مقدم سمجھتی ہے۔ میرے ملک کا ہر شہری شخصیت اور پارٹی کو ملک سے عزیز جانتا ہے۔ میں تذبذب اور شک و شبہات کا شکار ہوں ایسی قوم اور ایسے نمائندوں کے ہوتے ہوئے اس ملک کی نظریاتی سرحدوں کا کیا ہوگا؟ کیا اس ملک کی سمت درست ہو پائے گی۔ کیا یہ ریاست اپنے حقیقی مقاصد تک پہنچنے کے لیے ایسے ہی نمائندوں کی محتاج ہوگی؟ میں نے اس عرصے میں ملک سے مخلص اور بے لوث خدمت گاروں کو پابند سلاسل ہوتے دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ جو اس ملک کے دشمن ہیں ان کے دباؤ میں میری اپنی ریاست کے وفاداروں کو جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اس ملک کے مخلص لوگوں کو انصاف کے لیے ترستا دیکھا اور انصاف کو بیرونی آقاؤں کی لونڈی پایا۔ اگر ملک میں انصاف کی بات ہوتو غریب شخص ثبوتوں کے ہوتے ہوۓ اپنا کیس ہار جاتا ہے لیکن امیر ثبوتوں کے ہوتے ہوئے کبھی شک اور کبھی رحم کے نام پر بری کردیا جاتا ہے۔ امیر کے لیے قانون و ضوابط بدل دیے جاتے ہیں۔ عالمی سطح پر ریاست حق پرستوں کا دفاع نہیں کر پاتی۔ مجھے میری ریاست بے بس اور کمزور نظر آئی۔ مجھے نظریاتی لوگ جیل میں ملے اور دشمن کے ایجنٹ اسمبلیوں میں پاۓ گئے ۔
مجھے میری ریاست کا مستقبل دھندلا دکھتا ہے۔ میں اپنے نمائندوں سے زیادہ اپنی قوم سے پریشان ہو۔ میری قوم ریاست کو پارٹی پر قربان کردیتی ہے۔ دینی احکامات کو شخصی محبت میں قربان کردیتی ہے۔ لیکن پھر بھی میں پر امید ہو اک دن میری قوم کے فرزند نظریاتی ریاست کو کسی پارٹی یا شخصیت پر قربان نہیں کریں گے۔ جس دن ایسا ہوگیا اس دن میری ریاست اپنے مقاصد کی طرف قدم بڑھا دے گی۔ امید بہار رکھے ہوۓ منتظر ہوں۔ کہ میری ریاست کے قید خانوں میں نظریاتی لوگ قید نہیں کاٹیں گے اور سزا یافتہ لوگ اسمبلیوں کی زینت نہیں بنیں گے۔ تذبذب اور شک و شبہات کے یہ بادل چھٹ جانے کے لیے ضروری ہے میری ریاست کے باشعور لوگ نظریہ پاکستان سے وفا کا عہد کریں۔

Leave a reply