باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق دہشت گردی ی عدالت نے جج ویڈیو سکینڈل مقدمے سے دہشتگردی کی دفعات نکال دی ہیں۔

انسداد دہشت گردی عدالت کے جج راجہ جواد عباس نے مقدمے سے دہشت گردی کی دفعات نکالنے کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سنایا جو کہ 23 جولائی کو محفوظ کیا گیا تھا۔

عدالت نے قرار دیا کہ دہشتگردی کا کیس نہیں بنتا اور دہشتگردی کی دفعات ہٹا دی گئی ہیں۔ دہشتگردی کی دفعات ہٹانے کے بعد کیس ایک بار پھرسے انسداد سائبر کرائم کی خصوصی عدالت میں چلے گا۔

جولائی2019 میں مسلم لیگ ن کی جانب سے مریم نواز، شہبازشریف اور شاہد خاقان عباسی نے ایک پریس کانفرنس کی تھی جس میں جج ارشد ملک کے متعلق ایک ویڈیو دکھائی گئی۔ ویڈیو میں ارشد ملک کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ نواز شریف کو سزا سناکر میرا ضمیر ملامت کررہا ہے اور ڈراؤنے خواب آتے ہیں۔ جج نے ساتھ بیٹھے لیگی رکن ناصر بٹ کو بتایا کہ نواز شریف پر نہ کوئی الزام نہ ہی کوئی ثبوت ہے۔

جج ارشد ملک نے ایک دن بعد مبینہ ویڈیو کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ان کی ساکھ کو خراب کرنے کے کوشش ہے۔ ارشد ملک نے ن لیگ کی پریس کانفرنس کے ایک دن بعد پریس ریلیز جاری کی جس میں کہا گیا تھا کہ مجھ پر بالواسطہ یا بلا واسطہ کوئی دباؤ نہیں تھا اور نہ ہی کوئی لالچ پیش نظر تھا میں نے تمام فیصلےخدا کو حاضر ناظر جان کر اور قانونی شواہد کی بنیاد پر کیے۔

ارشد ملک کی برطرفی سے نواز شریف کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ انہیں بری اور سزا دینے کے دونوں فیصلے کالعدم ہو جائیں گے ، کامران خان

متنازعہ ویڈیو سامنے آنے کے بعد جج ارشد ملک کے خلاف تحقیقات کیلئے کیس وزارت قانون کو بھیج دیا گیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ارشد ملک کو لاہور ہائیکورٹ بھیج دیا تھا اور اس کے خلاف محکمانہ کارروائی کی سفارش بھی کی تھی۔ لاہور ہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی نے ارشد ملک کو جج ویڈیو اسکینڈل کیس میں برطرف کر دیا ہے۔

اس کیس میں ایک فریق ارشد ملک کو سزا کے بعد دوسرے فریق مریم نواز و ناصر بٹ کو بھی سزا کی امید بن گئی ہے۔ شہباز گل

Shares: