آہ !معمرقذافی کے بعد امن نصیب ناں ہوسکا : لیبیا میں متحارب فریقوں کے درمیان سابقہ معاہدوں کی تاریک تاریخ کا ایک جائزہ

0
48

لیبیا میں جمعے کے روز فائر بندی کے متبادل اعلان پر عرب دنیا سمیت عالمی برادری کی جانب سے وسیع پیمانے پر خیر مقدم سامنے آیا ہے۔ تاہم اس کے باوجود بہت سے امور کے حوالے سے کئی نکات ابھی تک ابہام کا شکار ہیں۔ ان میں سرت شہر، اجرتی جنگجوؤں، ملیشیاؤں اور تیل کے معاملات شامل ہیں۔

بیرونی فریقوں کی مداخلت اور ترکی کی طرف سے شام سے لائے گئے اجرتی جنگجوؤں کے پھیلاؤ کے سبب لیبیا کا منظر نامہ پیچیدہ ہو گیا۔ شائد اسی وجہ سے لیبیا کے پارلیمںٹ میں بعض ارکان یہ باور کرانے پر مجبور ہو گئے کہ زمینی حقائق پیچیدہ ہو چکے ہیں۔گذشتہ برسوں میں متحارب فریقوں کے بیچ کئی سمجھوتے اور اصولی منصوبے سامنے آئے مگر ان پر عمل درامد نہ ہوا۔

 

 

سال 2015ء میں مراکش میں اقوام متحدہ کی سرپرستی میں الصخیرات کا معاہدہ طے پایا تھا۔ اس کے بعد لیبیا کو بحران سے نکالنے کے لیے کئی منصوبوں کا اعلان ہوا تاہم درحقیقت یہ تمام سمجھوتے کاغذ کی حد تک باقی رہے۔

کئی ماہ کے مذاکرات کے بعد 17 دسمبر 2015ء کو الصخیرات کے معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اقوام متحدہ کے زیر سرپرستی یہ سمجھوتا لیبیا کے شہری نمائندوں اور مراکش میں لیبیا کے ارکان پارلیمنٹ کے درمیان طے پایا۔ اس معاہدے میں قومی وفاق کی حکومت تشکیل دینے پر اتفاق ہوا جس کا صدر دفتر طرابلس میں ہو۔ تاہم 2014ء میں منتخب ہونے والی پارلیمنٹ اور قومی کانفرنس (اگست 2012ء میں منتخب ہونے والی عبوری کونسل) نے اس معاہدے پر تحفظات کا اظہار کیا۔

 

 

 

اسی طرح جولائی 2017ء میں لیبیا کے فریقوں نے فرانس کے علاقے "لا سیل سین کلوڈ” میں ہونے والے اجلاس میں اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ ملک کو انارکی سے باہر لانے پر کام کریں گے۔ انہوں نے فائر بندی اور انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کیا تاہم کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔

بعد ازاں 29 مئی 2018ء کو لیبیا میں وفاق حکومت کے سربراہ فائز السراج، فوج کے سربراہ خلیفہ حفتر، پارلیمنٹ کے اسپیکر عقیلہ صالح اور ریاستی کونسل کے سربراہ خالد الشمری فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ایک کانفرنس میں اکٹھا ہوئے۔ کانفرنس کے اختتام پر ان سب نے عام انتخابات کرانے کے مل کر کام کرنے پر اتفاق کا اظہار کیا۔تاہم ان پر عمل درامد نہیں ہوا۔

نومبر 2018ء میں ماضی میں لیبیا پر قابض استعماری طاقت اطالیہ نے ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس کا مقصد لیبیا کے تمام فریقوں کو قریب لانے کی ایک نئی کوشش تھی۔ تاہم یرمو میں ہونے والی یہ کانفرنس لیبیائی فریقوں کے بیچ جاری انقسام اور غیر ملکی بالخصوص ترکی کی مداخلت کے سبب ناکام ہو گئی۔

اس کے بعد 28 فروری 2019ء کو اقوام متحدہ میں ایک نئے معاہدے کا اعلان کیا جو ابوظبی میں طے پایا۔ یہاں وفاق حکومت کے سربراہ فائز السراج اور لیبیا کی فوج کے سربراہ خلیفہ حفتر کے درمیان ملاقات ہوئی۔ اس موقع پر دونوں شخصیات لیبیا میں انتخابات کے اجرا پر متفق ہو گئیں مگر اس حوالے سے کوئی ٹائم ٹیبل متعین نہیں کیا گیا۔ لہذا اس سمجھوتے پر بھی عمل درامد نہ ہو سکا۔

گذشتہ برس 20 مارچ 2019ء کو لیبیا میں اقوام متحدہ کے مشن نے اعلان کیا کہ اپریل کے وسط میں لیبیا کے شہر غدامس میں ایک "قومی کانفرنس” منعقد ہو گی۔ اس کانفرنس میں ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے "نقشہ راہ” ترتیب دیا جائے گا۔ تاہم زمینی پیش رفت موافقت کے برعکس برعکس ثابت ہوئی۔

اس کے بعد ترکی جانب سے مداخلت اور اجرتی جنگجوؤں کی لیبیا منتقلی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔اس تمام جائزے کے بعد یہ سوال جنم لیتا ہے کہ گذشتہ روز 21 اگست کو فائز السراج اور عقیلہ صالح کی جانب سے جاری بیانات پر عمل درامد ہو گا یا پھر یہ سابقہ تمام معاہدوں اور سمجھوتوں کی طرح کاغذ پر بکھری روشنائی کی حد تک باقی رہیں گے؟

Leave a reply