جی آئی ڈی سی کیس،نظر ثانی کی درخواست پر سپریم کورٹ نے فیصلہ سنا دیا
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے جی آئی ڈی سی کیس کے فیصلے کیخلاف نظر ثانی درخواست مسترد کر دی
عدالت نے حکم دیا کہ حکومت تمام کمپنیوں سے بقایا جات 60 اقساط میں رقم اکٹھی کرے گی، سپریم کورٹ نے وکلا کو ہدایات لینے کی مہلت دے دی, جسٹس مشیرعالم کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی،عدالت نے جی آئی ڈی سی فیصلے کے خلاف دائر تمام درخواستیں خارج کر دیں
عدالت نے کہا کہ کمپنیوں کی طرف سے 456 ارب روپے کے بقایا جات ہیں،حکومت بقایاجات کی ریکوری کے لیے 24 کی بجائے60 برابر اقساط میں وصولی کرے،
دوران سماعت عدالت نے نعیم بخاری کو دلائل نظرثانی درخواستوں تک محدود کرنے کی ہدایت کی،جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے میں کوئی کمی ہے تو اسکی نشاندہی کریں ہم اپیلیں نہیں سن رہے، آپ اپیل نہیں نظرثانی درخواستوں پر دلائل دیں،
وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں قدرتی گیس کی پیداوار سرپلس ہے، جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ کیا پیدا شدہ گیس وفاقی کی ملکیت ہے یا صوبوں کی ہے؟ وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ قانون کہتا ہے کہ جہاں سے گیس پیدا ہوگی اس پر پہلا حق علاقے کے عوام کا ہے،حکومت کمپنیوں سے مزید ریکوری کرنے سے پہلے موجود 295 ارب روپے استعمال کرے ،وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ 295ارب روپے بہت بڑی رقم ہے، جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ کمپنیوں کو رعایت دینے یا ریکوری کی قسطیں بڑھانے پر آپ کی کیا رائے ہے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ انڈسٹری پر اتنا بوجھ نہ ڈالیں ،جب چلے گی تب ریکور کر لیں،عدالت کو بتائیں جو 295 ارب روپے ریکور ہوئے وہ کہاں ہیں؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم چھ ماہ میں کام شروع کر رہے ہیں،عدالت نے کہا کہ آپ عدالت کو بتائیں کہ فیصلے کے بعد کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں؟
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے رواں برس 13 اگست کو فیصلہ سنایا تھا جس میں کہا گیا تھا گیس کمپنیوں کو گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کی مد میں 417 ارب روپے ادا کرنا ہوں گے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا تھا
عدالت عظمٰی کے تین رکنی بینچ نے فیصلہ دو ایک کی اکثریت سے فیصلہ سناتے ہوئے گیس کمپنیوں کی تمام اپیلیں مسترد کر دیں۔ عدالت نے تمام کمپنیوں سے 31 اگست 2020 تک کی واجب الادا رقم 24 اقساط میں وصول کرنے اور شمال جنوبی پائپ لائن منصوبہ پر کام چھ ماہ میں شروع کرنے کا حکم دیدیا۔
گیس کمپنیوں کی تمام اپیلیں مسترد۔ حکومت کو جی آئی ڈی سی یعنی گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کی مد میں رقم وصولی کی اجازت مل گئی۔ سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم نے گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کیس کا بیس فروری کو محفوظ کیا گیا مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے فیصلہ دو ایک کی اکثریت سے فیصلہ سناتے ہوئے گیس کمپنیوں کی تمام اپیلیں مسترد کردیں ۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے جسٹس فیصل عرب کا تحریر کردہ سینتالیس صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ بھی جاری کر دیا۔ عدالت نے اپنے فیصلہ میں جی آئی ڈی سی کے تحت نافذ کی گئی لیوی کو آئین کے مطابق قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جی آئی ڈی سی ایکٹ 2015 کا مقصد گیس کی درآمد کیلئے سہولت دینا تھا۔ سپریم کورٹ نے حکومت کو سیس بقایاجات کی وصولی تک مزید سیس عائد کرنے سے روکتے ہوئے کہا ہے کہ سال دوہزار بیس اکیس کیلئے گیس قیمت کا تعین کرتے وقت اوگرا سیس کو مدنظر نہیں رکھ سکتا۔ تمام کمپنیوں سے 31 اگست 2020 تک کی واجب الادا رقم 24 اقساط میں وصول کی جائے۔
عدالت نے حکومت کو شمال جنوبی پائپ لائن منصوبہ پر کام چھ ماہ میں شروع کرنے کا حکم دیتے ہوئے ٹاپی منصوبہ کی پائپ لائن پاکستانی سرحد تک پہنچتے ہی اس پر فوری کام شروع کرنے کی ہدایت کردی۔
31 صفحات پر مشتمل اپنے اختلافی نوٹ میں جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا ہے کہ پاکستان اکنامک سروے کی حالیہ رپورٹ کے مطابق مقامی قدرتی گیس مجموعی توانائی سپلائی کا 38 فیصد ہے۔ قدرتی گیس کی قلت اور طلب کے درمیان خلا کو پر کرنے کی ضرورت ہے۔ دس سالوں میں 295 ارب روپے جی آئی ڈی سی کی مد میں اکٹھے ہوئے۔
وفاقی حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اگرچھ ماہ میں قانون سازی نہ کر سکی تو جی آئی ڈی سی کی مد میں اکٹھا فنڈ واپس کرے۔
مسلم لیگ ن کی حکومت نے گیس پائپ لائن منصوبوں کیلئے سیس کے نام پر ٹیکس لاگو کیا تھا۔ تاہم تحریک انصاف کی موجودہ حکومت نے آرڈیننس کے ذریعے جی آئی ڈی سی کے 220 ارب معاف کر دیئے تھے۔ تاہم اپوزیشن کی تنقید پر حکومت نے متعلقہ آرڈیننس واپس لے لیا تھا۔ جس کے خلاف کمپنیوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ جہاں اپنا مقدمہ ہارنے کے بعد گیس کمپنیوں کو گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کی مد میں 417 ارب روپے ادا کرنے ہوں گے
عدالت عظمیٰ نے جی آئی ڈی سی کیس کا فیصلہ 20 فروری کو محفوظ کیا تھا،جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تھی،عدالت نے فیصلہ محفوظ کرنے سے قبل اجازت دی تھی کہ تمام وکلا 15 روز میں اپنی معروضات تحریر ی طور پر جمع کرا سکتے ہیں،پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی جانب سے وفاق کی سیس کی حمایت کی گئی تھی جبکہ خیبرپختونخوا حکومت نے اس کی مخالفت کی تھی۔
چہیتوں کو نواز کرحکومت نے احتساب کے اپنے نعرے کو شرما دیا، جماعت اسلامی
2019 میں وفاقی حکومت نے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے مختلف کمپنیوں کے ذمہ گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس ٹیکس کی مد میں اربوں روپے معاف کرنے کا فیصلہ کیا تھا،بعدازاں میڈیا اور مختلف حلقوں کی مخالفت پرحکومت نے صدارتی آرڈیننس واپس لے لیا تھا۔
واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت کابینہ اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ معاشی ٹیم اس معاملے پرمکمل تفصیل قوم کے سامنے رکھے، 208ارب روپے معاف کرنے سےمتعلق حقائق کوتوڑمروڑکرپیش کیاجارہاہے، گیس انفراسٹرکچرڈیولپمنٹ سرچارج کے حوالے سے حقائق بتانا ضروری ہیں، قومی خزانےکی حفاظت کی ذمہ داری خودلی ہے،کسی کونہیں نوازا جائے گا،
قبل ازیں خبر آئی تھی کہ حکومت نے پاک عرب، عارف حبیب، کے ای ایس سی، عارف نقوی، ڈیسکون ، ہارون ،اوراینگرو کےایک خفیہ نوٹیفیکیشن کے ذریعے 300 ارب کی رقم واجب الادا رقم معاف کردی.ان خیالات کا اظہار معروف اینکر روف کلاسرا نے ایک نجی ٹی وی پروگرام میں کیا
روف کلاسرا نے حکومت کے ان اقدامات پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے اینگرو کو کنٹریکٹ دے کر 200 ارب ان کو دے دیا ، روف کلاسر ا نے کہا کہ عمران خان نے قوم کا پیسہ ان چند بڑے بڑے سرمایہ کاروں کو معاف کرکے زیادتی کی ہے. عمران خان کو چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس جانا چاہئے تھا.