گلگت :اگلے چند گھنٹے بڑے اہم:گلگت بلتستان الیکشن پاکستان کا الیکشن،کون کہاں اورکیا کررہا ہے،اہم رپورٹ،اطلاعات کے مطابق گلگت بلتستان کے الیکشن کو پاکستان کا الیکشن کہا جارہا ہے،ان حالات میں جبکہ ایک طرف ساری اپوزیشن نے حکومت کے خلاف اکٹھ کیا ہوا ہے، اور ملک میںمہنگائی کی صورت حال نے بھی پریشان کررکھا ہے ، ان حالات میں ووٹرکی رائے کوبڑا اہم قراردیا جارہا ہے
ادھر گلگت بلتستان کے انتخابات پرنظررکھنے والے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہےکہ اگر گلگت بلتستان کے انتخابات کوپاکستان کے انتخابات نہ کہا جائے تو یہ انصاف نہ ہوگا،
دوسری طرف تازہ ترین اطلاعات کے مطابق گلگت بلتستان کی صوبائی اسمبلی کے تیسرے انتخابات کے لیے میدان سج گیا ہے اور پولنگ میں محض گنتی کے چند گھٹنے باقی ہیں۔تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے مرکزی رہنما جلسوں میں مصروف ہیں۔
اتوار کو 23 نشستوں کے لیے ووٹ ڈالے جائیں گے جب کہ ایک حلقے میں امیدوار کے انتقال کر جانے کے باعث اس حلقے میں ووٹنگ 23 نومبر کو ہو گی۔
گلگت بلتستان میں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد سات لاکھ 45 ہزار 361 ہے جن میں چار لاکھ پانچ ہزار 363 مرد اور تین لاکھ 39 ہزار 998 خواتین ووٹرز ہیں۔
گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کی 24 میں سے 23 نشستوں پر کل 327 امیدوار مدِ مقابل ہیں۔ ان میں سے 128 مختلف سیاسی جماعتوں کے نامزد کردہ ہیں جب کہ 197 امیدوار ذاتی اور انفرادی طور پر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز گلگت بلتستان میں موجود ہیں جب کہ مرکز میں حکمراں جماعت تحریک انصاف کے کئی مرکزی رہنما مراد سعید، زلفی بخاری، علی امین گنڈاپور اور دیگر انتخابی جلسوں میں شریک ہو رہے ہیں۔
انتخابات سے قبل گلگت بلتستان میں بھرپور جوش و خروش پایا جاتا ہے اور انتخابی جلسوں میں شہریوں کی بڑی تعداد شریک ہو رہی ہے۔ بیشتر جماعتیں گلگت بلتستان کے انتخابی جلسوں کو سوشل میڈیا پر بھی شیئر کر رہی ہیں۔
حزبِ اختلاف میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی نے تمام حلقوں سے اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں جب کہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے 21، 21 امیدوار میدان میں ہیں۔ دونوں جماعتوں نے ایک ایک نشست چھوٹی جماعتوں یا آزاد امیدواروں کے ساتھ ایڈجسمنٹ کی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے جماعت وحدت المسلمین کے ساتھ ایک نشست پر معاہدہ کیا ہے۔ ادھر اسلامی تحریک پاکستان کے 8 امیدوار میدان میں ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم کے 15، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 12، جماعت اسلامی کے تین، متحدہ قومی موومنٹ کے چار جب کہ پاک سر زمین پارٹی، آل پاکستان مسلم لیگ، گلگت بلتستان قومی موومنٹ، مجلس وحدت المسلمین اور پاکستان راہِ حق پارٹی کے تین تین امیدوار انتخابی اکھاڑے میں اتارے گئے ہیں۔
پاکستان برابری پارٹی اور پاکستان عوامی لیگ کے دو، دو جب کہ عوامی ورکرز پارٹی کا ایک امیدوار میدان میں ہے۔
عوامی ورکرز پارٹی کے سربراہ بابا جان ریاست مخالفت الزامات کے تحت 28 سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ اُن کی جماعت سے منسلک کئی اہم اور سرکردہ رہنما آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
انتخابی سرگرمیوں کی بات کریں تواس وقت تحریک انصاف کا مقابلہ پیپلزپارٹی سے ہوگا، البتہ ماضی کی روایات کے تحت وفاق میں برسراقتدار جماعت حکومت بنانے کیلئے ہر سیاسی حکمت عملی اختیار کریگی، آزاد امیدواروں و دیگر چھوٹی جماعتوں کیساتھ ملکر حکومت سازی کے لیے کام کریگی،
یہ بات بڑی اہم ہےکہ اگر پیپلز پارٹی بھی ایسی صورت میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوسکتی اگر ن لیگ 5 نشستوں پر کامیاب ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک مشکل مرحلہ ہوگا، کیونکہ ن لیگ کی انتخابی مہم کافی کمزور دیکھائی دیتی ہے۔
وفاق کو دیکھتے ہوئے اکثر لوگ تحریک انصاف کی جانب متوجہ ہے اور ووٹ بھی تحریک انصاف کو توقع سے زیادہ ملنے کا قوی امکان ہے، چونکہ تحریک انصاف نے گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کا اعلان کیا ہے اور اکثر سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں صوبہ کے حق میں مظاہرے کررہے ہیں جو کہ براہ راست تحریک انصاف کو الیکشن میں مثبت نتائج دیے سکتا ہے








