تھوہا محرم خان میں طالبات کا استحصال

ہر حکومت نے اپنے دور میں مفت اور معیاری تعلیم کا نعرہ لگایا ہے لیکن تعلیم محض پانچ جماعتیں پڑھنے کا نام تو نہیں (UPE)یونیورسل پرائمری ایجوکیشن کے نعرے دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے کہ مصداق پر کشش تو ہیں لیکن کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔ آج کل کے دور کا تقاضا محض پرائمری تعلیم نہیں بلکہ دور حاضر کی جدت ہم سے ہر شعبہ زندگی کی طرح تعلیم میں بھی Do Moreکا مطالبہ کرتی ہے۔مقابلے کی اس فضا میں جب ملک میں ایم اے لوگ تو کسی گنتی میں نہیں ایم فل اور پی ایچ ڈی بھی تگ و دو کا شکار ہیں کیسے اس بات کو جوا ز مہیا کیا جا سکتا ہے کہ حکومت پرائمری تک تعلیم دے کر بری الذمہ ہے؟پھر اس میں بھی ایک تلخ خقیقت یہ ہے کہ پرائمری ایجوکیشن میں تمام زور لڑکوں کے لیے ادارے بنانے میں ہے۔
تھوہا محرم خان میں بھی یہ امتیازی سلوک روا رکھا گیا ہے 30سے زائد سکولوں میں لڑکیوں کے سکول پانچ یا چھ ہوں گے۔لاوہ تحصیل کے بعد موضع تھوہا محرم خان ایشیاء کا دوسرا بڑا قصبہ ہونے کا اعزاز رکھتا ہے۔اس کا رقبہ اورآبادی دونوں غیر معمولی ہیں۔ ضلع چکوال میں یہ شائدواحد گاؤں ہے جہاں نہ صرف دو یونین کونسلز ہیں بلکہ 30سے زائد سرکاری سکول بھی کام کر رہے ہیں۔ بادی النظر میں تو ایک گاؤں میں 30سکول کافی سے زیادہ ہیں لیکن یہاں حقائق انتہائی تلخ ہیں۔مرکزی شہر تھوہا محرم خان کے ساتھ ملحق کئی ڈھوکیں ایسی ہیں جہاں نہ صرف لوگ زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں بلکہ ان کے لیے تعلیم خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم ایک سراب کی حیثیت رکھتی ہے۔ تھوہا محرم خان سے ڈھرنال کی جانب جانے والے پختہ راستہ پر دو موڑ ایسے ہیں جہاں سے راستہ آپ کو لیجاتا ہے ان آبادیوں میں جہاں بجلی کسی حد تک 2020میں مہیا کر دی گئی ہے لیکن دیگر ضروریات زندگی سے کوسوں دور،تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم کئی چھوٹی چھوٹی بستیاں کسی مسیحا کی منتظر ہیں۔ ڈھوک کنڈ میاں محمد،ڈھوک تلہ جابہ،ڈھوک دابڑ ڈھبہ یہ تین علاقے تھوہامحرم خان کی یونین کونسل 58میں شامل ہیں یہاں ہر ڈھوک پر ایک ایک بوائز پرائمری سکول موجود ہے۔ ڈھوک ڈابڑ ڈھبہ سکول میں طلباء کی تعداد 95ہے جس میں لڑکیاں 49ہیں۔ گورنمنٹ پرائمری سکول کنڈ میاں محمد میں طلباء کی تعداد 175ہے جس میں 70 سے زائد لڑکیاں زیر تعلیم ہیں۔ جبکہ گورنمنٹ پرائمری سکول تلہ جابہ میں تعدادطلباء 94ہیں ان میں لڑکیوں کی تعداد42ہے۔کل مِلا کر ان تین سکولوں میں لڑکیوں کی تعداد 161ہے۔لیکن اسی علاقے میں تین سکولوں کے UPEسروے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ درجنوں لڑکیوں کے والدین گرلز سکول نہ ہونے کی وجہ سے بچیوں کو مدارس میں بھیج رہے ہیں یا پھر گھر بٹھا رکھا ہے۔یعنی بنیادی تعلیم تک بھی لڑکیوں کی رسائی 100فی صد نہیں ہے جبکہ حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہواکے مصداق المیہ صرف یہ نہیں بلکہ اس سے آگے یعنی ایلمنٹری ایجوکیشن تک رسائی تمام طالبات کے لیے نہایت مشکل ہے۔ نہ تو والدین کے معاشی وسائل اتنے ہیں کہ وہ لڑکیوں کے لیے ٹرانسپورٹ کا انتظام کرسکیں اور نہ ہی علاقہ کا محل وقوع اجازت دیتا ہے کہ لڑکیاں اکیلی گھر سے دور روزانہ آئیں جائیں۔ان علاقوں میں عام طور پر پنجم جماعت کے بعد لڑکیوں کی تعلیم کا فی تصور کرتے ہوئے ان کو گھر بٹھا لیا جاتا ہے۔ علاقہ کا نزدیک ترین گرلز پرائمری سکول ڈھبہ ہرمل ہے جہاں کسی حد تک ڈھوک دابڑ ڈھبہ کی آبادی کو اس کا فائدہ ہے لیکن اس کا دائرہ کار چند نزدیکی گھروں تک محددود ہے۔تلہ جابہ سے گرلز سکول ڈھبہ ہرمل کا فاصلہ 8کلومیڑ جبکہ کنڈ میاں محمد سے یہ فاصلہ12کلومیٹر ہے۔ یہ فاصلہ ایک سکول تا دوسرے سکول ماپ کر لکھا گیا ہے۔ اصل مسائل ہر سکول سے ملحق آبادیوں کے لیے ہیں۔ جو ان سکولوں کا فیڈنگ ایریا تصور کی جاتی ہیں۔ڈھوک کنڈ میاں محمد پرائمری سکول میں بچے اور بچیاں ڈھوک سڑیا،ڈھوک گوچھڑشمالی حصہ، ڈھوک چھوئی مجید ڈھوک، گلی،ڈھوک ولاوئیں، ڈھوک کنڈ،ڈھوک ککڑ،ڈھو ک ڈ نگا گاٹا سے پڑھنے کے لیے ایک تا چار کلومیٹر جبکہ بعض دور کی ڈھوکوں سے پانچ تا چھ کلومیڑ تک پیدل چل کر آتے ہیں۔ تلہ جابہ پرائمری سکول میں بھی صورتحال یہی ہے ڈھوک گوچھڑ کاجنوبی حصہ، ڈھوک وچھوال، ڈھوک لیٹاں، ڈھوک ڈانڈا، ڈھوک پٹیاں، ڈھوک مہلی، ڈھوک کاچھل، سے بچے ایک تا چھ کلومیٹر پیدل سفر کرکے سکول پڑھنے آتے ہیں۔ان تما م علاقوں کو لڑکیوں کی پنجم سے آگے تعلیم کے لیے دو سکول میسر ہیں ایک کا ذکر پہلے کیا جاچکا ہے یعنی گرلز ایلمنٹری سکول ڈھبہ ہرمل جس کا فاصلہ ان ڈھوکوں سے 10کلومیٹر سے کم نہیں، جبکہ دوسرا سکول ان علاقوں سے پندہ کلومیٹر دور تھوہا محرم خان گرلز ہائی سکول ہے۔علاقے کی جغرافیائی ساخت سے نا واقف معزز قارئین کو ممکنہ طور پر بیان کیا گیا فاصلہ کم محسوس ہو لیکن واقفانِ حال جانتے ہیں یہ نیم پہاڑی علاقہ ہے جس کے75فیصد راستے محض ٹریکٹر یا جانوروں اور موٹر سائیکل سواروں کی گزر گاہ ہیں۔علاقے کو ایک نیم پختہ سڑک تھوہا محرم خان سے ملاتی ہے لیکن اس پر پبلک ٹرانسپورٹ بالکل نہیں چلتی علی الصبح چند گاڑیاں تلہ گنگ جاتی ہیں جو شام ڈھلے گاؤں کا رخ کرتی ہیں۔اس طرح طلبہ کو علاقائی ٹرانسپورٹ کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ پرائمری پاس لڑکے تو موٹر سائیکل، سپیشل گاڑیوں پر (اکثر چھتوں پر یا سائیڈ پر لٹک کر) تھوہا محرم خان بوائز ہائی سکول یا کھوڑ بوائز ایلمنٹری سکول تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں لیکن ان کا بہت سا وقت اور توانائی آنے جانے میں صرف ہو جاتی ہے۔اس پر مرے کو ماریں شاہ مدار کے مصداق زرعی پس منظر کی وجہ سے سکول سے واپسی پر کافی وقت کھیتی باڑی اور مال مویشی سنبھالنے میں گزر جاتا ہے۔جبکہ لڑکیاں تو 5یا 10سے زیادہ پنجم سے آگے پڑھنے بھیجی ہی نہیں جاتیں۔ان 5یا10میں سے بھی کئی ایک کو 8جماعتیں پوری ہونے سے پہلے سکول سے نکلوا لیا جاتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ کنڈ میاں محمد پرائمری سکول کو نہ صرف اپ گریڈ کر کے ایلمنٹری کیا جائے بلکہ علاقے میں لڑکیوں کا ایک ایلیمنٹری سکول بھی بنایا جائے جس کو داخلے کا رجحان اور نتائج سے مشروط کر کے ہائی کرنے کی بھی امید دلائی جائے۔اہل علاقہ پر یہ حکومت وقت،سیاسی معززین اور سرکردہ شخصیات کا ایک ایسا احسان ہو گا جس کا ثمر ان کو اللہ کے ہاں تو ملے گا ہی ان شا اللہ آنے والی نسلوں تک دنیا میں بھی اس اہم ترین کاوش کو یاد رکھا جائے گا۔ قارئین آنے والا ہر دن ہمیں اس طرف لیجا رہا ہے جب انسان وہی کامیاب اور دولت مند ہو گا جس کے پاس علم ہو گا۔عالمی اداروں میں پیشہ وارانہ مہارتوں کو جس شرح سے ترجیح دی جا رہی ہے آنے والے چند سالوں میں تعلیم سے بڑا نہ تو کوئی خزانہ ہو گا اور نہ اس کا کوئی نعم البدل ہوگا۔تھوہا محرم خان ضلع چکوال کے ان چنیدہ علاقوں سے ہے جہاں ٹیلنٹ کی بہتات ہے لیکن یہ تمام تر ہونہار،ذہین اور قابل طلبہ و طالبات مناسب مواقع نہ ملنے کی وجہ سے دن بدن ضائع ہو رہے ہیں۔یہ تحریر تھوہا محرم خان کے خواص و عوام کے منجمد احساسات و خیالات کی جھیل پر پہلا کنکر ہے۔ان شاللہ علاقہ میں بچوں کا مستقبل محفوظ بن جانے تک ہر سماجی،سیاسی اور معاشرتی دہلیز پر بذریعہ قلم دستک جاری رہے گی کیوں کہ ہم صبح پرستوں کی یہ ریت پرانی ہے ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا۔

(کاشف شہزاد تبسم،مبشر حسن شاہ)

Shares: