درد کی بھی ایک زبان ہوتی ہے جس کو سمجھنے کے لیے دل کی آنکھ درکار ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ بظاہر خوشحال اور پرسکون نظر آنے والے چہروں کے پیچھے کتنے کرب چھپے ہوتے ہیں۔ وقت کی تیزی اور گردشِ زمانہ نے انسان کو کس قدر بے حس بنا دیا ہے کہ دوسرے کا درد محسوس نہیں ہوتا۔ مگر جو درد میں ڈوبا ہو اس کی زندگی کس بھنور سے گزرتی ہے یہ وہی جانتا ہے۔ فیض کہتے ہیں
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
قریب پون صدی کی غلامی کی زندگی، اذیت ناک صبحیں، درد بھری شامیں اور محرومیوں بھرے ماہ و سال، ایک لرزا دینے والا تصور پیدا کرتے ہیں۔ سال میں ایک دن اس بے بسی و بے نوائی کی گھٹن زدہ زندگی کے نام کر دینا اس کی محرومیوں کا مداوا نہیں کرتا مگر ذہن کے بند دریچوں پر ہلکی سی دستک ضرور دے جاتا ہے۔ پیلٹ گن سے بے نور آنکھیں، باپ کے سائے سے محروم یتیم بچے، اجڑے سہاگ والی دوشیزائیں، بے ردا ہوتی حیا و شرم والی خواتین اور نوجوانوں کے کٹے پھٹے لاشے عالمی مردہ ضمیر کو جھنجھوڑنے سے قاصر ہیں۔ جس باقاعدگی سے ہم یکجہتی کی رسمِ دنیا نبھا رہے ہیں اسی باقاعدگی سے نہتے کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔ سالہا سال کی مکرر یکجہتی اور ہمدردی اب کشمیری عوام کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتی اور وہ زبان حال سے کہنے پر مجبور ہیں
مجھے چھوڑ دے میرے حال پر ترا کیا بھروسہ ہے چارہ گر
یہ تری نوازش مختصر میرا درد اور بڑھا نہ دے
ذرا چشم تصور میں اس معصوم بچے کو لائیے جس کی بینائی پیلٹ گن چھین لے گئی۔ درد کی اس تصویر کو دیکھتے ہی دل غم سے بھر جاتا ہے۔ آج بھی اسی غم نے مجبور کیا کہ اپنا ما فی الضمیر سپرد قلم کر دوں شاید کہ دل میں دہکنے والی آگ کچھ ٹھنڈی ہو اور سکون قلب نصیب ہو۔
درد ہو دل میں تو دوا کیجے
اور جو دل ہی نہ ہو تو کیا کیجے
اس کے ساتھ ہی یہ سوچ ذہن کو پریشان کرتی ہے کہ عالمی امن کے ٹھیکیدار اور بڑے بڑے طاقتور ممالک کیوں ایسے محکوم لوگوں کے درد کا مداوا کیوں نہیں کرتے؟ کیا عالمی قوانین کا اطلاق صرف پاکستان جیسے امن پسند ملک کے لیے ہی ہے؟ کیا بھارت جیسی نجاست کو کوئی پوِتر اور پاک کرنے والا نہیں ہے؟ دو سال ہونے کو ہیں کہ بھارت نے کشمیر کی حیثیت کو زبردستی تبدیل کر دیا ہے اور بڑی ڈھٹائی سے خطے میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی مکروہ سازش پر جتا ہوا ہے۔ دنیا کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے اس کی کارستانیاں دیکھ رہی ہے ۔
درد بڑھ کر دوا نہ ہو جائے
زندگی بے مزا نہ ہو جائے
عالمی برادری اور ادارو ں کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور بھارت کے مکروہ عزائم کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنا چاہیے۔ اس طرح اگر اہالیان کشمیر کو بھارت مظالم کا تختہ مشق بنائے رکھا تو ایشیا میں امن کی مخدوش صورتحال پوری دنیا پر اثر انداز ہو گی۔ بقول حفیظ جالندھری
دوستوں کو بھی ملے درد کی دولت یا رب
میرا اپنا ہی بھلا ہو مجھے منظور نہیں