مزید دیکھیں

مقبول

وزیراعظم ملک کی معیشت ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،گورنر سندھ

کراچی:گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے کہا ہے کہ وزیراعظم...

ڈیرہ غازی خان : میڈیسن اسکینڈل،حکومتی یوٹرن، دباؤ یا پردہ پوشی؟ اصل مجرم کون؟

ڈیرہ غازی خان (باغی ٹی وی رپورٹ)میڈیسن اسکینڈل،حکومتی یوٹرن،...

ریاست بہاولپور کی عظمت کا نشان،صادق گڑھ پیلس، زبوں حالی کا شکار

اوچ شریف،باغی ٹی وی(نامہ نگارحبیب خان) احمد پور شرقیہ...

رمضان المبارک کی روح اور تقاضے بقلم:جویریہ بتول

رمضان المبارک کی روح اور تقاضے

(بقلم:جویریہ بتول).
خزاں زدہ اشجار اور پودوں پر جب بادِ بہاری کے جھونکے گزر جاتے ہیں تو کیسے خوش رنگ گُل اور شگوفے پھوٹ آتے ہیں…نرم و نازک سی کلیاں اُمیدِ بہار کا پیغام بن کر دل کو اک عجب راحت اور آنکھوں کو گہری ٹھنڈک فراہم کرتی ہیں…بعینہ ہجری سال کا نواں مہینہ رمضان بھی نیکیوں کا موسمِ بہار کہلاتا ہے جو اپنے نام کے لغوی و اصطلاحی معنوں میں بھی ہمارے نامۂ اعمال سے گناہوں کے مٹنے اور نیکیوں کی بہار کا باعث ہے… یہ رحمت و مغفرت اوربرکات کے نزول کا مہینہ ہے…جب جنت کے دروازے کھل جاتے،سرکش شیاطین جکڑ دیے جاتے اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں…ایک ایک نیکی کا اجر و ثواب کئی کئی سو گنا بڑھ جاتا ہے…
رمضان شھر القرآن ہے… یہی وہ مہینہ ہے جس میں لیلۃ القدر جیسی قدر و منزلت والی عظیم رات ہے…جس کی عبادت ایک ہزار مہینوں کی عبادت کے بہتر ہے… روحانی و جسمانی امراض کے لیے یہ بہترین تربیتی کورس اپنے مقصد کے اعتبار سے کیا پیغام لے کر آتا ہے…؟
کہ لعلکم تتقون¤
تاکہ تم تقویٰ والے بن جاؤ…

اس ایک ماہ کی تربیت کے رنگ کو سال کے باقی ماہ و ایام میں نافذ کرکے عملی اعتبار سے مستقل مزاج اور ابدی فلاح والے بن جاؤ…
رحمت کی یہ برسات زرخیز دلوں کی زمین کے لیے نہایت موزوں اور ہر سیاہی و آلودگی کو بہا لے جانے کا باعث ہے…مگر اجاڑ و بنجر زمین کے لیے بارش کچھ زیادہ فائدہ مند ثابت نہیں ہوتی…چٹیل زمین فصلِ بہار کو اُگانے سے محروم ہی رہتی ہے…
یہی وجہ ہے کہ رمضان المبارک کا مہینہ بھی کچھ نفوس کے لیے عام مہینوں کی طرح گزر جاتا ہے اُن کے معمولات،عبادات اور معاملات میں سنوار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا…

اور دوسری طرف ہم میں سے کچھ لوگ اگر اس مہینے کی خاص عبادت روزہ بجا لاتے بھی ہیں تو اُس کے مقصد سے لا علم ہی رہتے ہیں…

یاد رہے کہ روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے کا ہی نام نہیں بلکہ جسم کے ایک ایک عضو کی اصلاح کے سفر کا بھی نام ہے کہ اللّٰہ تعالٰی کی رضا کی خاطر حرام تو کجا حلال سے بھی رکنے کا وقت آ جائے تو اس سے بھی رُک جانا ہے…!!!
اگر روزہ رکھ کر بھی ہماری زبانیں،کان،آنکھیں اور دل بھٹک رہے ہوں تو جان لیجئے کہ ہم روزہ کا مقصد پورا تو کیا سمجھ ہی نہیں سکے…!

غیبت،جھوٹ،دھوکہ،سوشل میڈیا پر وقت کا فضول زیاں،یو ٹیوب اور دیگر ایسے فورمز پر غلط مواد و فحاشی کی ترویج و استعمال…!
اِسی طرح اشیائے خوردونوش کی مصنوعی قلت و گراں فروشی جیسے دیگر اقدامات ہمیں سچا مسلمان ہر گز ثابت نہیں کرتے…کہ جب غریب معمول کی اشیاء کی خریداری سے بھی محروم نظر آنے لگتا ہے…!

گویا اکثریت کے لیے یہ مہینہ بجائے نرمی،سخاوت،اور رعایت کے مجبور لوگوں کی جیب سے پیسہ نکالنا اور بٹورنا ہے…
اور اتنا بابرکت مہینہ بھی ہمارے بنجر رویوں کی اصلاح نہیں کر پاتا…ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت و تاجران باقی گیارہ ماہ کی نسبت اس مہینے میں کچھ خاص اور نہایت رعایتی اقدامات قربانی کے جذبے سے کریں تاکہ رب سے اجر کی اُمید کی تجارت کرتے ہوئے اس مہینہ میں ناجائز منافع خوری سے بچنے کی رِیت ڈالی جائے،مگر…؟

لیکن جب دل کی دھرتی بنجر ہو جاتی ہے تو پھر ربیع کی بارشیں بھی اس پر اثر انداز ہونا چھوڑ دیتی ہیں ناں…؟

تب احساس کی بجائے صرف اپنی ذات اور مفاد مدنظر رہتے ہیں اور معاشرتی مسائل کے حل کی طرف راہیں مسدود ہی رہ جاتی ہیں…!!!

ہم نے اس بار عہد کرنا ہے کہ رمضان کے اصل پیغام تقویٰ کا صحیح اور مکمل مفہوم سمجھنا ہے…!

ایمان و احتساب کی نیت سے صیام و قیام کا حق اَدا کرتے ہوئے گناہوں سے اٹے دامنوں کو دھونا ہے.

روزے کا صحیح حق اَدا کر کے الصوم لی و انا اجزی بہ کی کیٹیگری والوں کے اعزاز کا مستحق بننا ہے.

قرآن سے اپنا تعلق مضبوط تر بنانا ہے اور اس کی تعلیمات کو عمیقِ نظر اور صدقِ دل سے سمجھنے اور پھر عمل کی سنجیدہ کوشش کرنی ہے…کہ یہ قرآن پیاسی روحوں کی غذا اور دل کی نرمی کا باعث ہے…یہ مدہم سانسوں کی جِلا،بیمار دلوں کی شفا اور اُداسی کے پہاڑوں کی دوا ہے…جانتے ہیں ناں کہ دل کی یہ سختی اور ویرانی تو لمحہ لمحہ روح کو تڑپاتی ہے…اور ہم نے نفسِ مطمئنہ تک کا سفر اس قرآن کے سنگ ہی طے کرنا ہے جو رمضان کے مبارک مہینہ میں ہمارے لیے اُتار کر ابدی معجزہ کی صورت ضابطۂ حیات بنا دیا گیا.

ہمیں صرف رمضان کا مسلمان بننے کی بجائے اس مہینہ میں بجا لائی جانے والی تمام عبادات کو سال بھر کے لیے عملی طور پر اپنانا ہے.

تمام اخلاقی و روحانی بیماریوں سے یہ دل صاف کرنے کی مکمل کوشش کرنی ہے.

جھوٹ،چغلی،غیبت،حسد،انتقامی سوچ،بے حیائی اور فحش گوئی سے بتدریج دُور ہوتے چلے جانا ہے.

عفو و درگزر اور صلح و آشتی میں پہل کرنے کی ہمیشہ کوشش کرنی ہے.

تاکہ ہمارے نیک اعمال جب اللّٰــــہ کے حضور پیش ہوں تو ہماری باہمی رنجشیں اور کدورتیں اُن کی قبولیت کی راہ رکاوٹ نہ بننے پائیں.

دعاؤں کا خصوصی اہتمام کرنا ہے،ہم بیماریوں،وباؤں اور آفات کی زد میں ہیں…ہمیں قومِ یونس علیہ السلام کی طرح استغفار کے آنسوؤں سے گناہوں کی تپتی آگ کو بجھانا ہے…!

اپنی فلاح و اصلاح،صحت و عافیت کی دُعا نیز بیماروں،مستحقین اور اُمتِ مسلمہ کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.

اُن خوش نصیبوں میں شامل ہونے کی جستجو کرنی ہے جنہوں نے رمضان کو پا کر اس کی قدر کا حق اَدا کیا…نہ کہ اُن بدنصیبوں میں جن کی زندگی میں رمضان کے قیمتی و مبارک ایام بھی آ کر عام لمحات کی مانند گزر گئے اور اُن کا شعور بیدار نہ ہوا…!

اپنے ارد گرد کے ضرورت مند اور مستحقین کی مقدور بھر امداد کی ضرور کوشش کرنی ہے.

ہم چاہے کسی بھی شعبہ یا فیلڈ سے تعلق رکھتے ہوں،اپنے تئیں دوسروں کے لیے آسانی و رعایت کا باعث بننے کی کوشش کرنی ہے.

یہ تنکہ تنکہ نیکیاں…یہ بکھری بکھری اکائیاں جوڑ کر کامیابی کی شاہراہ کا نقشہ تشکیل دینا ہے…

اور خالصتًا اللّٰــــہ کی رضا مندی کی خاطر اعمال کرتے ہوئے جنت کی مہک بھری عطر دار ہواؤں اور خوشبوؤں کے آنگن میں باب الریان کے خصوصی اعزاز و دروازے سے ملائکہ کے سلام و دعاؤں کے ہمراہ مسکراتے ہوئے داخلے کا سامان کرنا ہے…ان شآ ءَ اللّٰــــہ.

ہمارا رب تو ہمارے چھوٹے چھوٹے اعمال کے بہانے سے ہم پر اپنی رحمتوں اور نعمتوں کی برسات کرنا چاہتا ہے مگر ہم غفلت کی چادر تانے جانے کیوں صرف خوابوں کی نگری میں گم ہیں…!

اور یقینًا اُس کی سب سے بڑی نعمت اُس کی رضا و جنّت ہے…جو جزا کی سب سے بڑی حقیقت ہے اور جس کا مستحق بنانے کے لیے یہ رمضان کا مہینہ بھی ہمیں ایک بہترین موقع فراہم کرتا ہے…حافظ ابنِ رجب رحمہ اللّٰــــہ کیا خوب فرماتے ہیں کہ:
"اے طویل عرصہ تک ہم سے جدا رہنے والے،صلح کے دن قریب آ گئے ہیں…اے مستقل خسارے میں پڑے انسان،نفع کمانے کے دن قریب آ گئے ہیں…
جو اس مہینہ میں بھی نفع نہ کمائے وہ کب نفع کمائے گا…؟
جو اس مہینہ میں بھی رب کے قریب نہ ہو تو وہ دُور ہی رہے گا…
تمہیں کتنا پکارا گیا آؤ فلاح کی طرف مگر تم نقصان میں پڑے رہے…تمہیں کتنی ہی بھلائی کی طرف دعوت دی گئی مگر تم فساد کی روش پر قائم رہے…!!!”
=================================