بچپن میں ایک قصہ سنا کرتے تھے کہ
ایک بادشاہ نے دو نایاب عقاب منگوائے.
دیکھا کہ ان میں سے ایک عقاب شکار کرتا اور اڑتا تھا لیکن دوسرا ایک ٹہنی پر بیٹھا رہتا.
بیسیوں حربے آزمائے لیکن وہ اُڑ کے نہ دیا,
بادشاہ نے ایک ماہر شکاری کو بلوایا, اگلے دن سب نے دیکھا کہ وہی عقاب اڑانیں بھرتا پھررہا ہے.
بادشاہ نے شکاری سے وجہ پوچھی تو شکاری نے جواب دیا کہ عقاب جس ٹہنی پر بیٹھتا تھا ,میں نے وہ ٹہنی کاٹ دی
اسی طرح سرکس کے ہاتھی کو نازک سی رسی سے بندھا ہوا دیکھا ہوگا آپ نے,اس ہاتھی کو بچپن میں طاقتور رسی سے باندھا جاتا رہا جو وہ توڑ نہیں سکتا تھا, جس سے اسکے ذہن میں یہ بات راسخ ہوگئی کہ رسی نہیں ٹوٹے گی.
دراصل یہ عقاب اور ہاتھی دونوں کا کمفرٹ زون تھا
لاشعور میں یہ بات بیٹھ جائے کہ
میں نہیں کرسکتا, مجھ سے نہیں ہوگا
تو آسان سے آسان کام بھی پہاڑ بن جاتا ہے .
ہم نے جگہ جگہ اپنی سوچ اپنے عمل, پر بیریئر لگا رکھے ہیں , اجتہاد سے دور بھاگتے ہیں.
ہم میں سے ہر کوئی کسی نہ کسی نازک سی ٹہنی پر بیٹھا ہے
ہار جانے کا خوف,ناکامی کا ڈر ہمیں چیلنج قبول کرنے نہیں دیتا
چیلنج نہ لینے سے ہم اپنی سوچ پر ناکا لگادیتے ہیں ,
ہمارے اندر آگے بڑھنے کی لگن ختم ہوجاتی ہے,
ہم ایک چھوٹے سے محدود سرکل میں آرام دہ رہنے کے عادی ہوجاتے ہیں,
سہل پسند ہوجاتے ہیں.
یہی وہ نقطۂِ عروج ہوتا ہے جہاں سے زوال شروع ہوتا ہے.
"تغیّر کو ہے ثبات زمانے میں”
ایک تبدیلی ہی اس دنیا میں مستقل ہے,
جامد و ساکت, متحرک و متغیّر کے رستے کی دُھول بن کر رہ جاتے ہیں .
چیلنج لینا سیکھیں,
ذہن منصوبہ بندی کا عادی ہوجائے گا,
ذہن متحرک ہوا تو جسم اس سے ہم آہنگ ہونے کی تگ و دو کرے گا.
پھر روح میں جوش,ہمت ولولہ اور قیادت کی صفات جنم لیتی ہیں.
انسانی تاریخ کھنگال لیں,
آپ کو ہر کامیابی کے پیچھے کوئی سر پِھرا, کوئی انوکھا, کوئی بہادر مُہم جُو نظر آئے گا
ہر بڑی ایجاد کے پیچھے کوئی جدت پسند اور رسک لینے والی سوچ نظر آئے گی .
تاریخ بڑی بے رحم ہے, اس میں کم ہمتی, ذہنی غلامی اور سخت و جامد رویوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے.
ذرا کمفرٹ زون کی ٹہنی سے اُڑ کر تو دیکھیں, کتنے اُفق آپکی پرواز سے تسخیر ہونے کے منتظر ہیں ؟
ذرا پاؤں کی زنجیر توڑیں تو سہی, کتنی دنیائیں, کتنے رستے آپکا نقشِ پا بننے کے لئے تیار ہیں ؟
کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں