ایک معاشرتی ناسورجس کا قلع قمع انتہائی ضروری عدم برداشت کے ناسورنے زندگی کے ہرشعبے کومتاثر کیا ہے مثلاً بیوی نے اس لیے خلع کا کیس دائرکردیا کہ اسکا شوہرکام سے تھکا ہوا آیا تھا اوراسے آج کے بجائے کل کو باہر لے جانے کہا، ایک کاروالا اس لیے رکشے والے سے لڑ پڑا کہ وہ اس کو اوورٹیک کر گیا اورایک خاتونِ خانہ نے اپنی ملازمہ کو اس لیے پیٹ دیا کہ وہ اپنا دو سالہ بچہ ساتھ لائی تھی جس نے الٹی کر دی غرض زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں رہا کہ جہاں عدم برداشت کا واقعہ رونما نہ ہوا ہو.

لیوی ایڈل مین Levi Adelman نے اپنی سائیکالوجیکل ریسرچ میں لکھا ہے کہ عدم برداشت کی تین قسمیں ہیں. ایک متعصبانہ عدم برداشت دوسری بدیہی عدم برداشت اسے ہم خود ساختہ عدم برداشت یا کسی کے بارے میں بغیرکسی وجہ کے بدگمانی پیداکرلینا بھی کہ سکتے ہیں اور تیسری قسم Deliberately Intolerance یعنی جان بوجھ کر کسی کو برداشت نہ کرنا یا کسی کے بارے میں بغض رکھنا کہہ سکتے ہیں.

بہرحال عدم برداشت چاہے کسی بھی قسم کی ہو، معاشرے میں بگاراور پر تشدد واقعات کی ایک بڑی وجہ بن گئی ہے. اگر کھانے میں نمک کم یا زیادہ ہو جائے تو شوہر بیوی کی 99 اچھائیاں بھلا کر اسے تنقید یا تشدد کا نشانہ بنا دیتا ہے اور بیوی بھی معمولی سی بات پر خلع کا مطالبہ کر دیتی ہے جس سے نہ صرف ایک خاندان بلکہ اس سے جڑے درجنوں افراد اذیت کا شکار ہوجاتے ہیں.
اس طرح سے عدم برداشت نے ہمارے معاشرے کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے. لیکن اگر دیکھا جائے تو کسی بھی ناگوار بات پر کچھ لمحہ کا صبر ہمیں اس اذیت اور شرمندگی سے بچا سکتا ہے. ہمیں ایک دوسرے کو اس لیے برداشت کرنا ہے کہ سب ہی ہماری طرح انسان ہیں جنہیں اپنی زندگی گزارنے کا حق اللہ تعالیٰ سے ملا ہے چاہے وہ رکشہ ڈرائیور یے، ہمارے گھر کام کرنے والی خاتون ہے یا پھر کوئی غریب معصوم بچہ، سب کو ایک ہی رب العالمين نے پیدا فرمایا اور ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بھی بنا دیا.
بحیثیت مسلمان اس معاشرتی بگاڑ کو سدھارنے کا نسخہ یہی ہے کہ ہم ہمہ وقت صبر اور شکر کا دامن مضبوطی سے پکڑے رکھیں. مثال کے طور پر اگر بیوی کھانے میں نمک ڈالنا بھول گئی ہے تو یہ سوچ لیں کہ وہ بھی انسان ہے اور انسان غلطی سے مبرا نہیں ہے. مفہوم حدیث ہے کہ صبر اور شکر کرنے والے جنتی ہیں. (کشاف، ص 572 ج اول قاہرہ 1325 ھ)
آخر میں یہی کہوں گا کہ معاشرے افراد سے بنتا ہے اور اسکی اصلاح یا بگاڑ کا انحصار بھی افراد کے رویہ پر ہوتا ہے اس لیے ہم میں سے ہر فرد (عورت، مرد) کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ معاشرے کی اصلاح میں حصہ لیں گے یا بگاڑ میں.
معین الدین بخاری
ٹویٹر آئی ڈی @BukhariM9

Shares: