آپ نے اکثرعلماء کو کہتے سنا ہوگا کہ جیسے جیسے انبیاء کرام آتے گئے پچھلوں کی شریعتیں منسوخ اور آنے والوں کی نافذ کی جاتی رہیں یہاں تک کہ یہ سلسلہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلیہِ وسلم پر آکر رک گیا۔
دیکھنے میں بات سادہ سی معلوم ہوتی ہے کہ انبیاء آئے، انہوں نے حق سچ کی تبلیغ کی، اپنی شریعت دی اورچلے جاتے رہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ بات واقعی اتنی ہی سادہ ہے جتنی بظاہر دیکھنے میں نظر آتی ہے؟
اگر ہم تھوڑا غور فرمائیں تو یہ حقیقت عیاں ہوجائے گی کہ نبیوں اور رسولوں نے جو پہلا پیغام دیا وہ آگہی کا تھا کہ بندو اپنے رب کو پہچانو، تخلیق کائنات کے مالک کو پہچانو اوراسی کی بندگی کرو کیونکہ اسی میں تمہاری نجات ہے۔ آخرت کا دن طے ہے وہاں جا کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا اور اسی حساب سے تمہاری آخری منزل کا فیصلہ طے ہوگا اور یہ معاملہ حساب کے دن نمٹایا جائے گا۔ اللّٰہ کے رستے پر چلنے کو صراط مستقیم کہا گیا۔ اسی رستے پر چلنے میں ہر انسان کی نجات و بخشش ہے۔ یہ وہ احکامات تھے جو قریب ہر رسول و نبی لے کر آیا کرتا تھا۔
ایک بات جو ہمیں علماء اکثر بتاتے آرہے ہیں کہ اگلے انبیاء کی شریعت پچھلوں سے تھوڑی مختلف ہوجاتی تھی لیکن یہ کبھی کسی عالم دین نے نہیں بتایا کہ ایسا کیوں ہوا کرتا تھا۔
تھوڑا غور کرنے پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جیسے جیسے انسانوں کی تعداد بڑھتی گئی، انسانی معاشرے پیچیدہ ہوتے گئے اور جرائم اورسماجی برائیاں بھی ساتھ ساتھ ہی بڑھتی گئیں۔ معاشرے چھوٹے ہوتے تھے تو ان کی سوچ اورسماجی برائیوں کا لیول بھی چھوٹا ہوا کرتا تھا۔ ہم اکثر پچھلے دور کو سادہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ پرانے لوگ بڑے شریف النفس اور اللّٰہ لوک ہوا کرتے تھے حالانکہ ایسا نہیں تھا بلکہ وہ بھی اپنے زمانے کے مطابق ہی ہوشیار و چالاک تھے لیکن چونکہ ان کے آس پاس کا ماحول محدود تھا اس لئے ان کے سوچنے کا انداز بھی محدود ہی ہوا کرتا تھا۔

پھر اسی بات پر واپس آتے ہیں کہ ہر آنے والا نبی نئے شرعی احکامات کے ساتھ کیوں آیا کرتا تھا؟
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جیسے جیسے انسانی تہذیب آگے بڑھی، انسانی دماغ کے سوچنے کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ اس کے اردگرد کا ماحول بدلا تو اس کی سوچ بھی بدل گئی۔ مثلاً ایک ہزار سال پہلے کا انسان اگر آج کی تہذیب میں آ نکلے تو وہ ڈر کے مارے اس دنیا سے پناہ مانگنے لگے۔ ممکن ہے بے چارہ کہیں کسی جگہ سڑک پار کرتے گاڑی کے نیچے آکر کچلا جائے۔ واقعہ معراج کی سائنسی توجیہ پیش کرنے والوں کو آج کے علماء برا بھلا کہتے نظر آئیں گے اور اس کی وجہ علماء کی ایک حد تک محدود اپروچ ہے اور وہ اس سے آگے سوچنے سے معذور ہیں۔ آئین سٹائن نے قریب 130 سال قبل ہی اس کی توجیہ پیش کر دی تھی کہ مادہ اور توانائی درحقیقت ایک ہی چیز ہیں اور ایک دوسرے میں بدلے جاسکتے ہیں۔ افسوس کہ مسلمان ‘براق’ کے لفظ سے بھی یہ بات نہیں سمجھ پایا اور اس کی وجہ مسلمان ممالک میں سائنسی سوچ کا فقدان ہے۔

بات ختم کرتے ہوئے ایک سوال کے ساتھ ہی جواب دوں گا کہ ہمارے ہاں اکثر سادہ ترین مسلمان بھی یورپ اور امریکہ والوں کے نظام معاشرت کی تعریف کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں اور یہ کہہ کر بات ختم کر دیتے ہیں کہ: غیر مسلموں نے ہمارے قرآن کی تعلیمات کو سمجھ کر سے اپنا لیا لیکن ہم اسے نا اپنا کر ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ یہ وہ حتمی نظام ہے جو نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلیہِ وسلم کے کر آئے اور انہوں نے اسے عملی شکل میں نافذ کرکے تاریخ کا حکم حصہ بنا دیا۔

گرچہ یہ بات سادہ سی معلوم ہوتی ہے لیکن یہ بات جتنی سادہ معلوم پڑتی ہے یہ اتنی ہی پیچیدہ اور سازش سے بھرپور ہے۔
ریاست مدینہ میں انصاف، امن، مساوات، سب شہریوں کیلئے وسائل کی برابر تقسیم، زکوٰۃ کا نظام ( ٹیکسوں کا نظام) بلا تفریق نافذ تھا، قانون کی بالادستی، شیر اور بکری کا ایک گھاٹ پر پانی پینا، حکمرانوں کا عادل ہونا اور ان کا آسان احتساب اور جہاد کا جاری رہنا وہ خصوصیات تھیں جنہوں نے ریاست مدینہ کو چند سال میں ہی دنیا کی سپر پاور بنا کر رکھ دیا تھا۔ اسی ریاست کے ماڈل کو فالو کرکے یورپ اور امریکہ کے عوام خوشحال اور پرامن معاشروں میں آئڈیل زندگیاں گذار رہے ہیں جبکہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ موجودہ مسلمان عبادات میں فلاح ڈھونڈتا ہے اور چوری چکاری، ڈاکہ زنی، سود خوری، ذخیرہ اندوزی، مہنگائی، ناانصافی اور رشوت خوری کا خاتمہ صرف ریاست کی ذمہ داری سمجھتا ہے اور اسی وجہ سے دنیا بھر میں مسلمان کو تیسرے درجے کا شہری قرار دیا جاتا ہے اور اسلامی ممالک علمو حکمت کی دنیا سے کوسوں دور ہیں جبکہ ان کے دین کی بنیاد ہی "اقرا” تھی۔
سوچنے کا نہیں یہ رونے کا مقام ہے ہمارے لئے.

@NaveedBhattiMM
‎‎

Shares: