قارئین محترم آج میرا موضوع بہت حساس ہے. تنقید اور اصلاح کی گنجائش رکھتے ہوئے لکھوں گی.
ہمارے معاشرے میں ماں کا کردار ناقابل فراموش ہے وہیں پہ. ددھیالی رشتوں کی سازشیں ، دشمنیاں، اور انتقام بھی زبان زد عام رہتے ہیں.
اپنی زندگی کی سیکھ کے مطابق ایک مشاہدہ آپ سب کے سامنے رکھوں گی پھر فیصلہ آپ کا
میں نے ایک لڑکی کو دیکھا جس کو ایک بھرے خاندان میں رسم و رواج سے بیاہ کے لایا گیا پہلی بہو کے چاؤ لاڈ کے ساتھ ہی اس سے گھر کی ذمہ داریوں میں تعاون کی امید بھی رکھی گئی.
پہلی اولاد کے پیدا ہوتے ہی ہر رشتے کو ایک نیا نام ملا، دادا دادی نانا نانی چچا پھوپھو خالہ
ہر رشتے نے بڑھ چڑھ کے پیار جتایا.
یہاں تک سب درست بات بگڑتی ہے ماں کے کردار سے اب اس کی ذمہ داری شروع ہوتی ہے.
وہ بچے کو سہلاتی بہلاتی ہی رشتوں میں بھید بھاؤ شروع کر دیتی ہے
چندہ ماموں کی ہی مثال لے لیجیے
خالہ جان اور پھوپھو پہ لطیفے ..
جہاں تک میرا مشاہدہ ہے میں نے پھوپھو سے ذیادہ مخلص اور بے لوث محبت نہیں دیکھی بے وجہ …
ایسا کیا ہوتا ہے کہ دھدھیالی رشتے بچوں کو سمجھدار ہوتے ہی کھلنے لگتے ہیں؟
ماں کی دادی سے مڈبھیڑ ہوئی ہے مگر وہ اس کا اور ساس کا معاملہ ہے بچوں کو کیوں فریق بنایا گیا؟
کیا انجانے میں بچوں سے بے لوث محبتیں چھیننے والی اپنی ماں ہی نہیں؟
ایک جملہ اکثر مائیں کہتی ہیں تمہارے باپ نے مجھے دیا ہی کیا ہے …
جواب اگر حقیقی ہو تو جوانی کے بہترین سال مشقت کر کے رازق بنا رہا سایہ بنا رہا اور کیا دیتا..
ماں چاہے تو بچوں کو پھوپھو پہ لطیفے بنانے کی نوبت نہ آئے
بلکہ بچوں کے پاس ہر مشکل میں صدقے واری جانے والی پھوپھو میسر آ سکتی ہے .
مائیں جس طرح خالہ اور ماموں اور نانا نانی سی بچوں کی محبت اور قربت بنانے کے لیے کوشش کرتی ہیں اس کا آدھا بھی ددھیالی رشتوں کو وقت دیں تو ہر گھر سے قہقہے اور خوشیاں جھلکیں.
دوسری طرف ددھیالی رشتے جتنی محبت جتنا مان اپنی بیٹی پہ لٹاتے وہی بہو پہ بھی لٹائیں، جہاں بیٹی بی چاری لگتی وہیں بہو کو سوچیں تو بعید نہیں کہ گھر جنت بننے لگیں.
مگر سو باتوں کی ایک بات ماں کا کردار
ماں چاہے تو دونوں طرف توازن پیدا کر سکتی سازشیں یہ اتنے خوبصورت رشتوں کی تذلیل رک سکتی ہے

اگر ماں چاہے تو بچوں کو فریق بنانے کی بجائے انکو رشتوں کا ادب احترام سکھائے .

بچے جب فریق بنتے ہیں تو وہ باپ کو بھی دشمن سمجھنے لگتے ہیں.
ماؤں سے التجا ہے. اپنے رشتوں سے لڑائیوں کو بچوں میں منتقل نہ کریں.انکو ان کی محبتوں سے محروم نہ کریں.
سیدہ ام حبیبہ
Hspurwa198@gmail.com
@hsbuddy18

Shares: