ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں مختلف اقوام و ثقافت اور زبان سے تعلق رکھنے والے لوگ بستے ہیں۔
اور طبقات میں ایسے تقسیم ہیں کہ ہر کوئی خود کو دوسروں سے افضل سمجھتا ہےاور بات یہاں تک کہ کمتری اور برتری کی حد تک چلی جاتی ہے
پیدائشی طور پر ہمیں جس خاندان کی شناخت ملتی ہے ہم اس کو ہی لاشعوری طور پر دوسروں سے افضل سمجھتے ہیں۔ جو شناخت ہمیں اتفاقً ملی ہے جس کو حاصل کرنے میں ہماری کوئی کوشش نہیں اس کے لئے ہم بعض اوقات مرنے مارنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ ہماری اصلاح ہو یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ فکری انتشار کے عروج پر ہے۔کوئی گروہ یا جماعت اپنے سے الگ خیالات رکھنے والے کا نقطہ نظر سننے کو تیار نہیں جس کی وجہ سے معاشرتی بگاڑ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ امن کا تعلق معاشرے میں رہنے والوں کی نفسیات پر ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں نفرت اور انا کی ایسی بلندوبالا عمارتیں تعمیر کی گئیں ہیں کہ کوئی گروہ دوسرے کو سننے کو تیار نہیں۔
فکری انتشار کی ایک بڑی وجہ ہم مسلمانوں میں فرقہ واریت ہے ہمارے بہت سے علماء کرام مختلف فرقوں کے نام پر اسی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ دوسرے فرقے کی برائی اور خود کی اچھائی ثابت کریں۔ہمیشہ خود احتسابی اور حقیقت پسندانہ رویہ اپنانے سے کتراتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کی دوسری بڑی وجہ ہمارا بوسیدہ نظام تعلیم ہے جو پہلے تو مدارس، سرکاری اور پرائیویٹ نظام تعلیم میں تقسیم تھا اوراب مزید تقسیم در تقسیم ہوتا جا رہا ہے اور قوم ایک ہجوم کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ مدارس سے نکلنے والے حضرات اپنے مسلمان بھائیوں کو جہنمی اور کفر کے فتوے دیتے ہیں اور سکول اور کالج سے فارغ التحصیل لوگ مدرسوں میں پڑھنے والے لوگوں سے خود کو افضل سمجھتے ہیں۔ بات صرف فطری اختلاف تک نہیں رہتی بلکہ ماردھاڑ تک پہنچ جاتے ہیں۔افسوس کے ساتھ ان ستر سے زیادہ سالوں میں معاشرے کے ساتھ ساتھ ریاست نے بھی کبھی کوشش نہیں کی جس سے معاشرے کے مختلف گروہوں یا طبقوں میں ہم آہنگی بڑھ سکے۔ رہتی کمی ہماری سیاسی جماعتیں نکال دیتی ہیں جو ہماری قوم کو سندھی، پنجابی، بلوچی،پشتون، سرائیکی اور اس کے علاوہ بہت سارے گروہوں میں تقسیم کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں اور 70 سالوں میں تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی پر اقتدار سے لطف اندوز ہوتی آئی ہیں۔
کچھ سیاسی پارٹیاں مذہب کے نام پر اپنا چورن بھیجتی ہیں جن کے بارے میں سعادت حسن منٹو نے کیا خوب کہا تھا لیڈر جب آنسو بہا کر لوگوں سے کہتے ہیں کہ مذہب خطرے میں ہے تو اس میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ مذہب ایسی چیز ہی نہیں کہ خطرے میں پڑ سکے، اگر کسی بات کا خطرہ ہے تو وہ لیڈروں کا ہے جو اپنا اُلّو سیدھا کرنے کے لئے مذہب کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔یہ لوگ جنہیں عرف عام میں لیڈر کہا جاتا ہے، سیاست اور مذہب کو لنگڑا، لولا اور زخمی آدمی تصور کرتے ہیں۔
ہمیں اس مذہبی اور سیاسی تقسیم سے نکل کر اپنے بزرگوں کے فرمودات پر عمل کرتے ہوئے ایمان، اتحاد اور تنظیم کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا ورنہ ہم جدید دنیا سے بہت پیچھے رہ جائیں گے۔اللہ تعالی ہم سب کا حامی وناصر ہو۔آمین۔
@I_G68








