دنیائے سیاست کے قوانین کے تحت حکومت اور اپوزیشن پرمشتمل ہر دومخالف سیاسی پارٹیاں ایکدوسرے پرجائزتنقیدکے ذریعے مسائل کی نشاندہی کرتی اورانہیں حل کرنے کیلئے لائحہ عمل بتاتی اور تشکیل دیتی ہیں لیکن ہمارے ملک میں تھوڑا مختلف ہے کہ یہاں اپوزیشن میں ہوتے ہوئےتوحکومت کے ہرکام میں کیڑے اور عوام کے چھوٹے چھوٹے اجتماعی توکیاانفرادی گھریلو مسائل بھی نظرآتے ہیں لیکن حکومت ملتے ہی پتہ نہیں وہ عالی اور روشن دماغ کہاں چلے جاتے ہیں جن کے پاس اپوزیشن میں ہوتے توہرمسئلہ کا حل ہوتا ہے لیکن حکومت میں آتے ہی سب کچھ بھول جاتاہے،
بلکل ایساہی ہمارے وزیراعظم اپنی 22سالہ جدوجہد”حصول حکومت”میں کرتے نظرآئے اورایک ریڑھی والے مزدور،کسان،فیکٹری میں کام کرنیوالے نچلے درجے کے لوگوں اوربچے بوڑھےمردوخواتین پرمشتمل ہرصنف کے مسائل کی نشاندہی کرتے اور چٹکیوں میں ان کا حل بتاتے رہے جس سے ہرپڑھالکھاباشعورفردیہ سمجھنے لگا کہ یار یہ بندہ پاکستان کیلئے ضرورکچھ کریگاکیونکہ آکسفورڈکاپڑھاہونے کے باوجود اسے عام آدمی کے مسائل اوراس سے بڑھ کرانہیں حل کرنے کا علم اور صلاحیت بھی ہے توہمارے ملک کی روایت کے مطابق کسی نئے چہرے کوآگے آنے کیلئے جس نئی سوچ یانعرے کی ضرورت ہوتی ہے وہ بڑی تیزی سے پروان چڑھی کہ "تبدیلی کو ووٹ دو”اورچشم فلک نے دیکھا کہ ملک کے باشعور،پڑھے لکھے طبقہ اور نوجوان نسل نے اس نعرے کو قبول کیااورتحریک انصاف کو ووٹ دیکروزارت عظمی کی کرسی پربٹھادیااورعمران خان نے وزیراعظم بن کر عنان حکومت سنبھال لیا جس کا فوری اثر یہ ہوا کہ چونکہ عمران خان کی شہرت پہلے سے ہی ایک سنجیدہ اور سخت طبیعت منتظم کے طورپرپھیلی ہوئی تھی جس نے ہر سرکاری ملازم کو اسکے خول میں بندکردیااوروہ ڈرگیاکہ اب اگرکام نہ کیاتوپتہ نہیں کیاہوجائے گااورشایدبغیرحساب کتاب کے جیل یاگھرجاناپڑجائے یہی وجہ ہے کہ ہرمحکمہ کو سانپ سونگھ گیااوریکدم ہرکرپٹ اور رشوت خورنے جان ہے تو جہان ہے والے مقولہ پر عمل کرتے ہوئے اپناگورکھ دھندابندکردیاکہ یارجب اس نے تین بارکے طاقتور ترین وزیراعظم نوازشریف کو نہیں چھوڑاتوایک سرکاری ملازم کی کیا اوقات ہے اوراسی وجہ سے دوچارماہ تمام سرکاری دفاترچپ سادھ گئے اور عوام سے تھوڑا بہت تعاون کرنے لگے لیکن انہیں یاوزیراعظم کوشایدپتہ نہیں تھاکہ پاکستانی نظام سیاست کاطرہ امتیازہی مثبت سے زیادہ منفی سوچ کیساتھ ملک اور قوم کی محبت کو بالائے طاق رکھ کر صرف اپنی زات کیلئے ہی کام کرنا ہے جو انہوں نے کرنا شروع کردیااورپرپرزے نکالنا شروع کردئیے جبکہ عمران خان کی سابقہ تقریروں کو دیکھ کر جن سے یہ پتہ لگتاتھاکہ اسے اپنی قوم کے ہر مسئلہ کا علم ہے لیکن بدقسمتی سے اسے یہ علم نہیں تھاکہ ایک کونسلرسے لیکراسمبلی ممبرتک جوسیاستدان کروڑوں لگاکراسمبلی میں آتا ہے وہ ملک کی نہیں بلکہ اپنی نسلوں کی تقدیر بدلنے کیلئے آتا ہے،ایک درجہ چہارم سے لیکرگریڈبائیس تک کاجوسرکاری ملازم لاکھوں کروڑوں کی رشوت دیکرکوئی عہدہ حاصل کرتاہے وہ ملک اور قوم کیلئے نہیں بلکہ اپنے لئیے کام کرے گااورپھرسابقہ حکومتوں کے بھرتی کردہ سفارشی سرکاری ملازم جو کئی سالوں کی سروس کے بعدترقی کرتے کلرک سے افسر بن گئے ہیں وہ کس طرح اسکی تبدیلی کے نعرے کو قبول کرینگے اور تعاون کرینگے اور وہی ہوا جس کا خدشہ پڑھے لکھے تجزیہ نگارظاہرکرتے آرہے تھے کہ عمران خان کے بے رحم احتساب کے ڈر سے بجائے اپنے آپکوسیدھاکرنے کے سب اپنوں اوربیگانوں نے اسے ہی سیدھا کرنے کیلئے گٹھ جوڑکرلیااورتعاون کرناچھوڑدیااورجوچندایک سیاستدان یا سرکاری ملازم کرپشن وغیرہ میں پکڑے گئے ہمارے کمزورعدالتی اور احتساب کے نظام کی بدولت بچ گئے اور یوں ہرکرپٹ عمران خان اور اسکی تبدیلی کے نعرے کا مذاق اڑاتے اپنے سابقہ کاموں میں جت گیااورعمران بے بسی سے سب کودیکھتارہ گیاجسکی دلیل کبھی چینی کبھی آٹے اورکبھی پٹرول کا بحران کہ جس چیزکابھی وزیراعظم نے نوٹس لیاوہ عوام کی پہنچ سے دورکردی گئی،
جسکی دلیل سانحہ ماڈل ٹاون وساہیوال میں ملوث ملزمان کاباعزت بری ہوجانااورحکومت کادیکھتے رہ جانا،
جسکی دلیل راوانواراورعزیربلوچ جیسے سینکڑوں بے گناہوں کے قاتلوں کابچ جانااورحکومت کا کچھ نہ کرسکناہیں جسکی دلیل ہر چھوٹے بڑے مافیا کے سامنے حکومت کاگھٹنے ٹیک دینا ہے،
لیکن میں کہوں گا کہ اس میں نظام کی خرابی نہیں بلکہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کا زیادہ عمل دخل ہے کہ اپوزیشن میں ہوتے تو آپکے پاس سومعاشی ماہرین کی ٹیم تھی لیکن حکومت میں آتے ہی وہ کہاں گئی کیونکہ اگر وہ ٹیم موجود ہوتی تووہ آپ کو ملکی معیشت پراثرانداز پرائیویٹ اداروں کی اجارہ داری ختم کرنے کیلئے انہیں قومیانے یا انکے مقابلہ میں سرکاری اداروں کے مضبوط کرنے کا مشورہ دیتی مثال کے طورپہ آپ چینی مافیاپہ ہاتھ ڈالنے سے پہلے ملک میں موجودعرصہ دراز سے بندسرکاری شوگر ملوں کو ٹھیک کرکے چلاتے تاکہ پرائیویٹ چینی مافیاجونہی اسکابحران پیداکرتاآپکی بجائے آپکی سرکاری شوگرملیں اسکا مقابلہ کرتیں اور بحران پیدا نہ ہوتا؛
آٹے کے بحران سے بچنے کیلئے آپ کسان سے براہ راست ساری گندم خودخریدکرزخیرہ کرتے تاکہ بوقت ضرورت اسے آٹے کی صورت میں حکومتی مقرر کردہ نرخوں میں عوام کو فراہم کرتے؛
اور جب پٹرول کا بحران پیداہواتوآپ پی ایس اوکے ذریعے وافرمقدارمیں تیل خریدتے تاکہ بجائے اسکے کہ جہاں آپ پٹرول کیلئے پرائیویٹ سیکٹرکی منتیں کرتے رہے وہ آپکے ترلے کرتے اور یہ بحران بھی پیدا نہ ہوتا؛
اور سب سے بڑی بات کہ ہمارے تجربہ کے تحت تو کبھی بھی قومیں عوام کی منت سماجت سے نہیں بنتیں بلکہ قانون کی پیروی اوراسکے لاگو کرنے میں سختی کرنے سے بنتی ہیں جسکی حالیہ مثال ہمارے ملک میں جاری کرونالاک ڈاون ہے کہ آپ نے اس پرعملدرآمدکروانے کیلئے سختی نہیں کی اور ہم نے عمل بھی نہیں کیااورجہاں قانون کی گرفت اتنی کمزوریوکہ ایک عام آدمی بھی اس سے خوفزدہ نہ ہو وہاں مختلف مافیازکاقانون سے بچ نکلنایااسے گھرکی لونڈی سمجھ لیناکوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے اور قانون پر عمل درآمد کے حوالے سے ہم جن مغربی اقوام کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے اصل میں وہ لوگ بھی ہم جیسے لاپرواہ اور بے ایمان ہی ہیں لیکن قانون کے نفازمیں سختی اور بھاری جرمانوں کے ڈر نے انہیں قوم بنارکھاہے جس کی مثال سابقہ لاک ڈاون میں امریکہ میں ایک سیاہ فارم کے قتل پرہونیوالااحتجاج ہے جس کے دوران ہونیوالی لوٹ مارنے انکے مہذب پن کی ساری قلعی کھول کے رکھ دی ہے لیکن ہم میں اور ان میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ اسطرح کی لوٹ مارکاجوموقع انہیں کبھی کبھارمیسرآتاہے ہمیں ہرروزدستیاب رہتا ہے کیونکہ اول توہمارے ہاں قانون پرعملدرآمدنہیں ہوتااوراگرہوتاہے تونظرنہیں آتااوریہی وجہ ہے کہ ہم لوگ بحثیت قوم ایک ہجوم ہیں جس میں شامل ہرفردکی کوئی اجتماعی نہیں بلکہ انفرادی منازل اورمقاصد ہیں جن کے حصول کیلئے ہم ہرجائزناجائزحربہ استعمال کرتے چلے آرہے ہیں اورکوئی پوچھنے یاٹھیک کرنے والا بھی نہیں حتی کہ
عمران خان صاحب آپ بھی نہیں

اس لئیے مجبوری سے کہناپڑرہاہے کہ اگراجازت ہوتو

آپکی خارجہ پالیسی بہترلیکن داخلہ پالیسی بہت کمزورہے

@adiiawan8

Shares: