عید ِقرباں پہ انا کی قربانی تحریر: محمد اسعد لعل

0
63

مسلمان ہر سال دو عیدیں مناتے ہیں۔ ایک عیدالفطر جو کہ یکم شوال کو مناتے ہیں اور دوسری عید الاضحیٰ جسے عید قربان بھی کہا جاتا ہے، دس ذی الحجہ کو مناتے ہیں۔ عید الاضحیٰ کے موقع پہ مسلمان حضرت ابراہیم کی سنت ادا کرتے ہوئے حلال جانور قربان کرتے ہیں، اسی کو قربانی کہتے ہیں۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بڑے صاحبزادے تھے۔ قرآن نے انہیں صادق الوعد کا لقب دیا۔ ایک دن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تمہیں ذبح کر رہا ہوں۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا اباجان جو کچھ آپ کو حکم ہوا کر ڈالئے آپ ان شاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔
قربان جائیں اس پیغمبر زادے کی ایمانی عظمتوں پر جنہوں نے باپ کے خواب کو اللہ کا حکم سمجھتے ہوئے سر تسلیم خم کر کے تاریخ انسانیت میں ذبیح اللہ کا منفرد اعزاز حاصل کیا۔
جب حضرت ابراہیم نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے لیے لٹایا تب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے فرمایا، اے ابراہیم (کیا خوب) تم نے اپنا خواب سچا کر دکھایا۔ ہم نیکو کاروں کو یوں ہی بدلہ دیتے ہیں۔
آسمان سے ایک مینڈھا آتا ہے اور حضرت ابراہیم، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ اس مینڈھے کو ذبح کرتے ہیں، ارشاد ہوتا ہے ابراہیم! تمہاری قربانی قبول ہوگئی۔ ہم نے اسماعیل کی ذبح کو ’’ایک عظیم ذبح،، کے ساتھ فدیہ کر دیا۔بے شک باپ کا بیٹے کے ذبح کے لئے تیار ہوجانایہ ایک بڑی صریح آزمائش تھی ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام اس آزمائش میں پورا اترے۔
اب ذہن انسانی میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو بچانا ہی مقصود تھا تو پھر ان کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا حکم کیوں ہوا؟ اور اگر حکم ہوا تھا تو ان کی زندگی کو تحفظ کیوں دیا گیا۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟
حکم اس لئے ہوا کہ سراپائے ایثار و قربانی پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لخت جگر سے ذبح کی تاریخ کی ابتدا ہوجائے کہ راہ حق میں قربانیاں دینے کا آغاز انبیاء کی سنت ہے اور بچا اس لئے گیا کہ اس عظیم پیغمبر کی نسل پاک میں نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت ہونا تھی۔ اولاد ابراہیم علیہ السلام میں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تشریف لانا تھا اس لئے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ذبح کو جنت سے لائے گئے مینڈھے کی قربانی کی صورت میں’’عظیم ذبح،، کے ساتھ بدل دیا گیا اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام محفوظ و مامون رہے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اسی قربانی کی یاد میں ہر سال مسلمان عید الاضحیٰ مناتے ہیں اور جانوروں کو اللہ کی راہ میں قربان کرتے ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا عید الاضحیٰ پرصرف جانور کو ذبح کر دینے سے قربانی کا مقصد پورا ہو جاتا ہے؟
عید ِقرباں کے موقعے پر اپنے اندر کے جانور(انا) کو بھی قربان کرنا چاہے۔ عید کے مقدس تہوار پر انسان ’’انا ‘‘ کی قربانی بھی کر لے تو قربانی کی حقیقی روح کو پا سکتا ہے۔عید قرباں کا مقصد بھی یہ ہے کہ جانور کی قربانی کے ساتھ اپنی خواہشات و انانیت کو قربان کیا جائے۔ عید کا یہ دن ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ اس کے توسط سے ہم اپنی ذاتی رنجشوں، ناراضگیوں اور ایک دوسرے کی غلطیوں وخامیوں کو نظر انداز کرکے کھلے دل سے ایک دوسرے کوگلے لگا لیں۔ اگر انسان اس مبارک موقعے پر’’انا‘‘ کی قربانی کر لے تو نہ صرف بہت سی مشکلات سے چھٹکارہ پا سکتا ہے، بلکہ خدا کی بہت قربت بھی حاصل کرسکتا ہے،کیونکہ یہ ’’انا‘‘ ہی بہت سے مسائل کی جڑ ہے۔اس کی وجہ سے انسان کی زندگی دوبھر ہوجاتی ہے۔بہت سے رشتے ’’انا ‘‘ کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔
آج ہمارا معاشرہ آپس میں اختلافات، تعصبات اور افرا تفری اور انتشارکا شکار ہے، اپنے علاوہ کوئی کسی دوسرے کی بات تک کو تحمل وبرداشت سے سننا نہیں چاہتا۔اس کا واحد سبب ہمارے نفس کی سرکشی ہے اور یہ تہوار ہمیں اپنے نفس کو دوسروں کے لیے قربانی دینے کا درس دیتا ہے۔ عید الاضحیٰ ہمیں آپس میں پیارومحبت اور اتحاد ویکجہتی کے ساتھ رہنے کا درس دیتی ہے اور یہ پیغام دیتی ہے کہ سب ایک دوسرے کے حقوق کی پاس داری کریں اور اچھے برے وقت میں ایک دوسرے کے کام آئیں۔
دوسروں کو بھی آپس کے اختلافات اور نفرتوں کو بھلانے کا درس دیں اور ایسا معاشرہ تشکیل دیں، جس کا تقاضا ہمارا دین کرتا ہے۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کی قربانیوں کو اپنی بارگاہ میں قبول و مقبول فرمائیں۔(امین)
پاکستان زندہ آباد۔
@iamAsadLal

Leave a reply