*اختلاف امت پر آخر کب تک ہم لڑتے رہینگے ؟*
یہ کالم میری زاتی رائے اور بحثیت شریعہ کے طالب علم زاتی تجربے پر مبنی ہے۔ آپ کا متفق ہونا یا اس سے اختلاف رکھنا دونوں میرے لیے قابل قدر ہیں۔ آپ کا متفق ہونے سے میری حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور آپ کا اختلاف رکھنا میرے علم میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہم آخری امت کی ہدایت کے لیے رحمت العالمین حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا انتخاب کرکے بھیجا۔ حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے جب لوگوں کو تبلیغ دینا شروع کی تو پہلے کم لوگ تھے جو ان کے قریب تھے ایمان لائے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ بڑھتا گیا اور وہ لوگ بھی شامل ایمان ہونے لگے جو دور دراز علاقوں سے تھے۔ ان ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو زندگی میں صرف ایک بار دیکھا تھا۔ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم رحمت العالمین تھے اور وہ چاہتے تھے کہ میری امت کو اللہ کے احکام کرنے میں آسانی ہو تو اس غرض سے مختلف مواقع پر مختلف طریقوں سے احکام کو عملی شکل میں لایا گیا۔ وہ اصحابہ اجمعین جو نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ساتھ ہر موقع پر ہوتے تھے وہ بہت کم تھے اور اس کے بجائے وہ اصحابہ اجمعین زیادہ تھے جو نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ساتھ ہر موقع پر موجود نہیں ہوتے تھے۔ اس وجہ سے ان اصحابہ کرام نے حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو ایک حکم کے مختلف طریقوں سے کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمیں دین اسلام بتدریج نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے اصحابہ، اصحابہ اجمعین سے تابعین، تابعین سے تب تابعین اور پھر اس طرح ہوتے ہوتے ہم تک پہنچ گیا ہے۔ اس طرح ہمیں وہی اسلام پہنچ گیا ہے جس پر عمل کرتے ہوئے کسی صحابی نے حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا ہوگا۔ اور اس صحابی رسول سے ہوتے ہوتے ہم تک پہنچ گیا۔ اور اس طرح میری قریب رہنے والی فیملی کو شاید کسی اور صحابی سے بتدریج پہنچ گیا ہو ۔ اب اگر ہم دونوں کے پاس دلائل موجود ہو تو پھر ہم لڑ کیوں رہے ہیں؟ کیوں ہم امت مسلمہ کو توڑنے کا سبب بن رہے ہیں؟ کیوں ہم آندھی تقلید میں رہتے ہوئے اپنے مسلمان بھائی کے خون کے پیاسے بن رہے ہیں؟ میرا قاری سوچ رہا ہوگا کہ پھر تو سارے فرقے ٹھیک ہیں، اس کے لیے میں یہاں ایک بات واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہاں سب ٹھیک ہے اس حد تک جب تک ان کے پاس قرآن اور حدیث سے دلیل ہو۔ کیوں کہ دین اسلام کے کوئی بھی فعل کے تولنے کے لیے ترازو قرآن اور حدیث ہے۔ اگر کوئی فعل اس ترازو پر تولے ٹھیک ہو تو پھر اس پر خود بھی عمل کرنا چاہیے۔ اگر آپ اس سے مطمئن نہیں ہو جو دوسرے گروہ کا ہو آپ بیشک اس سے اختلاف رکھے لیکن خدارا اپنے ان لوگوں کے جو دوسرے لوگوں کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں ان کے آندھی تقلید میں اس وطن عزیز کا اور دین اسلام کا امن خراب نہ کریں۔ ہمارا اصل مسلہ علم کی کمی ہے اور ان لوگوں کی آندھی تقلید ہے جو دوسروں کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں۔ میں شریعہ کا ایک معمولی طالب علم ہوں۔ ایک زمانہ تھا میں نے فقہ وغیرہ نہیں پڑھا تھا، میں سوچتا کہ میرا عقیدہ ٹھیک ہے باقی سب غلط راستے پر ہیں۔ لیکن جب تھوڑا بہت پڑھ لیا تو معلوم ہوا کہ سارے اپنی اپنی جگہ پر ٹھیک ہیں۔ ان سب کے پاس ہر حکم کیلئے دلیل ہوتی ہے۔ بغیر دلیل کے حکم لاگو نہیں کرتے ہیں۔ ہاں بعض جگہ انسان غلطی کرسکتی ہے لیکن زیادہ اختلاف کے مسائل میں سب کے پاس دلیل موجود ہے۔ میں جو دوسروں کو کافر سمجھتا تھا یہ دراصل میرا جہالت تھا۔
اس اختلاف امت کے مسلے سے جو مسائل جنم لیتے ہیں ان کے لیے جلد از جلد حل تلاش کرنا چاہیے کیونکہ ان مسائل سے آے روز کوئی نہ کوئی لڑائی ہوتی ہے ۔ ان مسائل کی وجہ سے کچھ اندھے مقلدین اس حد تک جاتے ہیں کہ دوسرے کی زندگی تک لے لیتے ہیں۔ اس سے دشمنیاں شروع ہوتی ہیں۔ اور ملک و دین دونوں کا پر امن ماحول خراب ہوجاتا ہے۔
اس کے حل کیلئے میری زاتی رائے یا یوں سمجھئے کہ تجویز یہ ہے کہ حکومت وقت ان علماء کو اکٹھا کرکے جن کے پاس علم ہو اور معتدل ہو اور وہ مختلف پلیٹ فارم سے عوام کو سمجھائے کہ ہم جو طریقہ اپنا رہے ہیں کسی خاص حکم میں بحثیت فلاں مکتبہ فکر تو ہمارے پاس یہ دلیل ہے لیکن یہ دوسرا مکتبہ فکر جو طریقہ اپنا لیا ہے اس کے پاس یہ دلیل ہے لہذا آپ لوگ وہی کرلے جس کی دلیل آپ لوگوں کو اچھی لگے۔ لیکن آپس میں جھگڑے کرنے کا کسی کے پاس کوئی اختیار نہیں اور نہ اس دین کی تعلیمات ہیں جس کے لیے تم آپس میں لڑ رہے ہو کہ آپس میں اختلاف کی وجہ سے لڑیں۔ اور علماء بھی کوشش کرے کہ سارے دلائل قرآن و حدیث سے پیش کریں۔ کیونکہ بحثیت مسلمان ہمارے لئے دین کے مسائل کیلئے ترازو قرآن اور حدیث ہے۔
اللّٰہ ہمیں ان اختلافی مسائل سے پیدا ہونے والی نفرتوں سے نجات دلادے اور اللّٰہ پاکستان کو دین اور امن کا گہوارہ بنا دے۔
(آمین)
_________________________
twitter.com/@IbnePakistan1








