استاد کا معاشرے میں مقام تحریر : اسامہ خان

0
36

انسان ایک اشرف المخلوقات ہے لیکن اس کو اشرف المخلوقات کا اصل مقصد اور مطلب اس کے والدین اور اس کے استاذہ کرام سمجھاتے ہیں، ایک بچہ پیدا ہوتا ہے زندگی کے تین برس گھر میں گزارتا ہے اور اس کے بعد دنیاوی اور دینی تعلیم کے لئے سکول و مدرسہ جاتا ہے یہاں سے اس کا استاذہ کرام سے سیکھنے کا عمل شروع ہوتا ہے سکول میں اس کے بہت سے اساتذہ کرام تبدیل ہوتے ہیں جیسے کہ پرائمری سکول کے الگ استاد ہوتے ہیں مڈل کے الگ اور میٹرک کے الگ ایسے ہی یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے پرائمری میں بچے کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ سکھایا جاتا ہے کیا اس نے اپنے استاذہ اور والدین کا کیسے احترام کرنا ہے اور بڑوں سے کیسے بات کرنی ہے اس کے بعد مڈل اور میٹرک میں بچوں کو سکھایا جاتا ہے کہ وہ معاشرے میں اپنی زندگی کیسے گزار سکتا ہے اور کامیاب انسان بننے کے لئے اس پر سب کا احترام لازم ہے۔ یہ سلسلہ کالجز اور یونیورسٹیز میں چلتا رہتا ہے لیکن جب بچہ یونیورسٹی میں جاتا ہے تو اس کو دنیا کے اصل رنگ دکھائے جاتے ہیں ان رنگوں میں ایک رنگ یہ بھی ہوتا ہے آپ کے ساتھ ساری زندگی کوئی نہیں چلے گا سوائے آپ کے والدین کے اور ساتھ ہی ساتھ استاذہ کرام پریکٹیکل کر کے دکھاتے ہیں کہ آپ نے اپنی زندگی کیسے گزارنی ہے اس کے بعد جب وہ بچہ ایک اعلی درجے کا افسر بن جاتا ہے تو اس کے پیچھے اس کے استاذہ کرام کی دعائیں اور محنتوں کا صلہ ہوتا ہے اگر استاذہ کرام اس پر اپنا وقت اور محنت نہ لگاتے شاید وہ بچہ ایک اچھے مقام تک نہ پہنچ سکتا آج استاذہ کرام کو برا بھلا کہا جاتا ہے کہ آپ نے ہمارے بچے پر ہاتھ کیوں اٹھایا اگرچہ دیکھا جائے تو آپ کے بچے کی بہتری کے لئے ہی ہوتا ہے، کل کو وہ بچہ جب ایک کامیاب انسان بن جاتا ہے تو استاد کو بھی کبھی بھی داد نہیں دیتا کہ آپ نے ہمارے بچے پر اتنی محنت کی کہ آج وہ اتنا اچھے مقام پر پہنچ گیا ہے حالانکہ استاد اس بچے کو دیکھ کر بے حد خوش ہوتا ہے کہ یہ بچہ ہم سے پڑھ کر گیا ہے اور آج اتنے اچھے مقام پر بیٹھا ہے، ایک استاد کے ہاتھ سے پڑھے ہوئے بچے سیاست دان، جج، وکیل، ڈپٹی کمشنر اور بہت بڑے بڑے انسان بنتے ہیں۔ لیکن افسوس اپنی کامیابی کے بعد ہم اپنے استاد اکرام کو بھول جاتے ہیں ایک دفعہ ایک استاد کا ٹریفک پولیس افسر نے چلان کاٹ دیا استاد کی مصروفیات کی وجہ سے پورا مہینہ چلان نہ بھروا سکے جب استاذہ کرام کو جج کے سامنے پیش کیا گیا اور پوچھا گیا کہ آپ نے چلان کیوں نہیں جمع کروایا تو انہوں نے کہا میں استاد ہوں مصروفیات کی وجہ سے میں چالان جمع نہ کروا سکا جب جج نے یہ سنا تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے تو ان کے ساتھ ساتھ سب اٹھ کھڑے ہوئے ان کے احترام میں تو جج صاحب نے کہا آپ جیسے استاذہ کرام کی وجہ سے آج ہم جج بنے ہیں یہ کہہ کر جج صاحب نے چلان پھاڑ دیا اور استاد صاحب کو باعزت طریقے سے ان کی مصروفیات کی طرف روانہ کیا۔ یہ تو صرف ایک مثال ہے ایسی بے تحاشہ مثالیں پائی جاتی ہیں آج ہم جو بھی ہیں اپنے اساتذہ کرام کی وجہ سے ہیں ان کی دعاؤں کی وجہ سے ہیں اس لیے کسی بھی ملک میں سب سے زیادہ اہم مقام پر فائز ایک استاد ہی ہوتا ہے کیونکہ وہ باشعور قومیں بناتے ہیں وہی قومیں کل کو ملک کے لیے دن دگنی رات چگنی محنت کرتے ہیں لیکن یہ سفر یہی پر ختم نہیں ہوتا جب ایک انسان ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہو جاتا ہے اور اپنے ملک کے لیے کام کرنا شروع کر دیتا ہے تو اس کو اس وقت بھی ایک استاد کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی رہنمائی کر سکے کہ آپ نے اپنے عہدے پر رہتے ہوئے کیسے لوگوں کی خدمت کرنی ہے اور یہ عمل مرتے دم تک جاری رہتا ہے

Leave a reply