قارئین کرام، یوں تو کہنے کو پاکستان اسلامیملک ہے مگر افسوس صد افسوس پاکستان میں عورتوں کے خلاف بڑھتے تشدد کے واقعات باعث تشویش ہے، جس کی بنیادی و جہ ناقص تحقیقات اور انصاف کی عدم دستیابی ہے۔ آئیے! اس ضمن میں حالات اور واقعات کا جائزہ لیتے ہیں۔پاکستان میں خواتین کو بہت ساری پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ملازمت پر ہراساں کرنے سے لے کر بے دردی سے قتل کیے جانے تک، پاکستانی خواتین عام طور پر زیادتی کا نشانہ بنتی ہیں۔ہیومن رائٹس واچ کے تخمینے کے مطابق، پاکستان میں 70%-90% خواتین کو کسی نہ کسی طرح کی زیادتی کا سامنا کرنا پڑا۔ 2005 میں، ایک مطالعہ میں 176 شادی شدہ مردوں سے کراچی میں گھریلو تشدد کے بارے میں اپنی رائے کے بارے میں انٹرویو کیاگیا۔ 46%نے کہا کہ مردوں کو اپنی بیویوں کو زدوکوب کرنے کا حق ہے، جبکہ65% نے اپنی ماؤں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنتا دیکھا ہے۔ پاکستان میں اسلام کی غلط تشریح کی وجہ سے خواتین کے خلاف تشدد کی سطح بہت زیادہ ہے۔ شوہر یا سسرال والے عام طور پر خواتین پر تشدد جیسے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ 2003 میں، اسلام آباد میں ہونے والی ایک تحقیق میں 216 شادی شدہ خواتین نے حصہ لیا۔ ان خواتین میں سے، 96.8% نے گھریلو زیادتی کی کچھ اقسام کا سامنا کیا۔مبینہ طور پر 80% مجرم شوہر ہیں اور 17%ماں یا سوتیلی مائیں ہیں۔خواتین کے خلاف جسمانی تشد د ہی صرف زیادتی کی واحد قسم نہیں ہے بلکہ اس کی بہت سی اقسام ہیں۔ پاکستان میں گھریلو تشدد معمول بنتا جارہا ہے کیوں کہ مرد اپنی بیویوں کا واحد مالک اور نگہبان تصور کیا جاتا ہے۔ جبکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق عورت کے حقوق کو بھی ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔1999 کی ایک رپورٹ میں 24-45سال کی عمر کے 70 مردوں سے انٹرویو کیا گیا جس میں سے 54 افراد نے اپنی بیویوں کے ساتھ اتفاق رائے سے تعلقات کو قبول کرنے کا اعتراف کیا۔ پاکستان میں بیویوں پر تشدد کے بارے میں 2015 کے ایک مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ جنسی تشدد کی انفرادی رپورٹس خواتین میں 77%، جسمانی 50% اور نفسیاتی 90 فیصد تک ہیں۔پاکستان میں خواتین کا ازدواجی زیادتی کا شکار بننے سے اکثر غیر ضروری حمل ہوجاتے ہیں۔ 2002 میں چوبیس لاکھ غیر ارادتاً حمل ہوئے۔ جس کے نتیجے میں نو لاکھ کا اسقاط حمل ہوا۔پاکستان میں اسقاط حمل کے محفوظ طریقوں کی کمی کی وجہ سے،دو لاکھ خواتین پیچیدگیوں کے سبب اسپتال میں داخل ہوگئیں، اور ہر 10 خواتین میں سے 1 عورت فوت ہوگئی۔پاکستان میں خواتین کے حقوق کے بارے میں آگاہی کا بہت بڑا فقدان ہے کیونکہ عام طور پر اسے اسلام کے مخالف بیانیہتصور کیا جاتا ہے۔ یہاں یہ بات واضح رہے اسلا می تعلیمات کے مطابق شوہر کو خاندان کا حاکم ہونے کا اعزاز ضرور ہے مگر شوہر کو یہ حق ہرگز حاصل نہیں کہ وہ بیوی کے حقوق کو سلب کرے کیونکہ دینِ اسلام میں خواتین کو بہت معتبر سمجھا گیا ہے۔ پاکستان میں خواتین کو عوام میں بھی ہراساں اور بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مددگار ہیلپ لائن کے مطابق، پاکستان میں 93% خواتین کو عوامی مقامات پر جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کو موصول ہونے والی شکایات میں 56% خواتین کی طرف سے ہیں جبکہ 13% مردوں کی طرف سے ہیں۔2015 سے اب تک، پاکستان میں 22000 زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جبکہ روزانہ اوسطا 11 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جس میں سزا کی شرح صرف 0.3% ہے۔مزید یہ کہ اس دور جدید میں آن لائن ہراساں کرنے کے معاملات روز بروز بڑھتے جارہے ہیں۔ خواتین کو فوٹو شاپ تصویروں کے ذریعے بلیک میل کیا جاتا ہے۔ ایف آئی اے کو 2018-2019 میں خواتین کی جانب سے 8500 شکایات موصول ہوئیں۔ تاہم، صرف 19.5%ہی تحقیقات کی گئیں۔پاکستان میں خواتین کو درپیش تمام پریشانیوں کی وجہ سے، عالمی سطح پر صنفی گیپ انڈیکس سیاسی بااختیارگی، معاشی شراکت، تعلیمی حصول، صحت اور بقا کی بنیاد پر پاکستان کو دنیا کا تیسرا بدترین ملک قرار دیتا ہے۔

@MAkhter_

Shares: