ہم ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں قدر و قیمت انسان کی نہیں رہی بلکے اس کے سٹیٹس کی ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کی حالت نہیں بلکے اوكات پوچھی جاتی ہے کے آپ کے پاس دولت کتنی ہے آپ کا بزنس کیا ہے آمدنی کتنی ہے وغیرہ وغیرہ۔
غریب تو ویسے بھی تباہ ہے جسے اکثر امیر زادے گلی کا آوارہ جانور سمجھتے ہیں وه جیے، مرے، کھاہے یا بھوکا رہے اس کی پرواہ کسی کو نہیں البتہ کوئی امیر زادہ راستے میں بھی مل جاہے تو دس بار کھانے پینے کا پوچھا جاتا ہے۔ اور آجکل اگر ہم کسی بھی محفل میں چلے جاہیں تو وہاں امیر کے لیے مخصوص قسم کا الگ سے بیٹھنے کا انتظام، کھانے پینے کا انتظام کیا جاتا ہے غریب کو دور سے سلام اور امیر کے لیے ہر شخص کھڑا ہو جاتا ہے اور آگے سلام کرنے کو جک جاتا ہے۔
دیکھنے میں آیا ہے آجکل اکثر لوگ شادی بیاہ کے فیصلوں میں بھی سٹیٹس کو ترجیح دیتے ہیں کے لڑکا کیا کرتا ہے؟ لڑکے کا رہن سہن کھانا پینا حلال حرام اخلاق مطلب اس سے نہیں بلکے مطلب اس سے ہے کے اس کے پاس دولت کتنی ہے اور یہی سوچ ہمارے معاشرے کی تباہی ثابت ہوئی۔
اندازے کے مطابق پاکستان میں اکثر طلاق یافتہ عورتيں تعلم یافتہ یا امیر خاندانوں سے تعلق رکھنے والی ہوتی ہیں اور غریب کم پڑی لکھی عورتيں کم طلاق یافتہ ہوتی ہیں جس کی وجہ یہی ہے لڑکی کی شادی کرتے وقت امیر زادوں نے سٹیٹس کو ترجیح دی لیکن غریب گھرانے کے لوگوں نے لڑکے کو اہمیت دی اس کی اچھایاں یا براہیاں۔۔۔۔
معاشرہ تب تک آگے نہیں بڑھ سکتا جب تک وه امیر اور غریب کے درمیان فرق کو ختم نا کر دے اور یہ فرق تب ختم ہو گا جب تک ہم دنیاوی تعلم کے ساتھ ساتھ دینی تعلم کی طرف لوٹ کر نہیں آتے۔
رسول ﷺ نے فرمایا علم حاصل کرو چاہے اس کے لیے تمیں چین جانا پڑے۔
علم کہتے ہیں جاننا
اللّه اور اس کے رسول ﷺ کے بارے میں جاننا۔
آجکل لوگ سائنس کی تعلم کے لیے بیرونے ملک جاتے ہیں وه دنیا میں رہنے کے لیے فنی تعلم حاصل کر لیتے ہیں لیکن پھر بھی علم سے دور بہت دور رہتے ہیں۔ ڈاکٹر، انجنیئر، وکیل وغیرہ علم نہیں فن ہے اور یہ فن اس کے پاس ہوتا ہے جو اس فن کو حاصل کرے اس کے ہارے میں جانے۔ علم صرف اللّه اور اس کے رسول ﷺ کے بارے میں جاننا ہے باقی سب فن ہے جو ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا لیکن علم ہر شخص پے فرض ہے۔
ہمارے معاشرے کی تباہی کی سب سے بڑی وجہ ہی علم ہے ہم نے فن کو علم سمجھا اور پھر علم سے دور رہ کر ہم سلیبرٹی بن گے ہم نے اللّه کے دین اسلام سے غلطیاں نکالنا شروع کی، ہم نے شہریت کو بھلا دیا، ہم نے اسلام کو اپنی مرضی کے مطابق کر لیا، ہم نے شہریت میں دی جانے والی سزاہوں کو جہالت سمجھ لیا جس سب کا نقصان ہمیں یہ ہوا کے ہمارا معاشرہ تباہ ہو گیا۔ ہم نے امیر اور غریب کے درمیان فرق پیدا کیا، بچوں کے ساتھ زیادتی، قتل و غارت، چوری، زنا، تشدد، بچوں اور بچیوں کے ساتھ ریب اور پھر ان کے بے رحمی سے قتل ہر برے عمل میں اضافہ ہوا اس کی وجہ یہی ہے کے ہم نے علم/شہریت سے دوری اختیار کی۔
جب تک ہم علم کی طرف اللّه اور اس کے رسول ﷺ کی طرف لوٹ کر نہیں اہے گے تب ہمارا ممعاشرہ ایسے ہی تباہ ہوتا رہے گا۔
@AM03100

Shares: