سڈنی :رگبی کے ورلڈ چیمپئن مسلمان کھلاڑی کی اعلیٰ ظرفی:غیرمسلم بھی حیران رہ گئے ،اطلاعات کے مطابق نیوزی لینڈ نے چند روز قبل آسٹریلیا کو رگبی ورلڈ چیمپئن شپ میں شکست دی تھی۔

عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس دوران ایک بچہ اپنی ٹیم کے ساتھ تصاویر کھینچنے کے لیے اسٹیڈیم میں گھس گیا ،اس بچے کواسٹیڈیم میں گھسنے سے روکنے کے لیےسیکورٹی اہلکاروں نے اسے دبوچ کرباہرلے جانے کی کوشش کی تو اس بچے کو نیوزی لینڈ کے مسلمان کھلاڑی (سونی ولیمز) کے سامنے گرا دیا ،

یہ منظرمسلمان کھلاڑی سونی ولیمزدیکھ کربرداشت نہ کرسکے ،سونی ولیمز نےگرتےہی اسے گلے لگایا اور محافظوں کو اسے گرفتار کرنے سے روکا ،

اسی کشمکش میں بچے نے سونی ولیمزکے ساتھ تصویربنوانا چاہی توسونی نے خوشی خوشی سے یہ قبول کرتے ہوئےاس کے ساتھ یادگار تصاویر لی۔

پھریہ بچہ سونی ولیمز کواپنے گھروالوں کے پاس لے گیا اس دوران ورلڈ چیمپئن سونی بچے کی خواہش کا احترام کرتےہوئے تمام پروٹوکول کوٹھوکرمارتے ہوئے بچے کے والدین اوردوست احباب کے پاس پہنچ گئے

اس دوران سونی ولیمزنےبچے کو گولڈ میڈل تحفے میں دے کر سب کو حیران کر دیا:سونی ولیمزایک طرف بچے کے گلے میں‌یہ گولڈ میڈل دیکھتے ہیں اورساتھ خوش ہوتے ہیں توساتھ ساتھ ہی میڈیا اوراپنے ساتھیوں کوبچے کی طرف اشارہ کرکے کہتے ہیں کہ یہ اس کی گردن پر ہے میری نسبت بہتر لگ رہا ہے!

اس نے کہا: میں چاہتا ہوں کہ یہ منظر ساری زندگی اس کے ذہن میں رہے۔

یاد رہے کہ سونی بل ولیمز کو دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا رگبی کھلاڑی سمجھا جاتا ہے۔ اس نے 2008 میں اسلام قبول کر کے سب کو حیران کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ وہ اپنے کم از کم مالی منافع سے مطمئن ہیں اور باقی وہ فلاحی کاموں اور یتیموں کی انجمنوں پر خرچ کرتا ہے

اس مسلمان کھلاڑی کے اس طرزعمل کودیکھ کرہزاروں نیوزی لینڈ کے باشندے بک سیٹروں کے باہرجمع ہوگئے اورایسی اسلامی کتب کا مطالبہ کرتے رہےجس میں سونی ولیمزکی تربیت کے ضابطے موجود ہوں

لوگ اس کے طرز عمل سے اس قدر متاثرہوئے کہ قرآن اوراسلام کتب کا مطالعہ کرنے لگے اوراسلام سے دشمنی ختم کرکے اسلام کی حقانیت کوتلاش کرنے لگے

https://twitter.com/BaaghiTV/status/1422890123226669058

 

سونی ولیمز نے اسلام کیوں قبول کیا؟

رگبی کے ورلڈ چیمپئن سونی ولیمز کہتے ہیں کہ وہ اپنے شاندار کریئر میں اب وہ ایک نئے موڑ کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اپنے ملک سے نو ہزار میل دور وہ اپنی اس نئی زندگی کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور وہ کسی طرح یاد رہنا چاہیں گے؟

’یہ نیا موقع ملنے پر میں انتہائی شکر گزار ہوں اور انکساری محسوس کرتا ہوں۔ ایک کھلاڑی کی حیثیت سے میرے لیے یہ ایک بہترین موقع ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ مجھ پر بہت دباؤ ہے لیکن کسی کھلاڑی کے لیے کچھ حاصل کرنے کا اس سے اچھا کون سا طریقہ ہو سکتا ہے؟‘

گزشتہ برس ولیمز نے عمرہ ادا کیا تھا جس کو وہ ایک زبردست تجربہ قرار دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’مکہ اتنی خاص جگہ ہے، پہلی مرتبہ کعبہ کی زیارت کرنا اور پھر مدینہ کے سکون کا تجربہ۔‘

صبح کے چھ بج رہے تھے، لندن کے ایک ہوٹل میں سونی بل ولیمز فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد ابھی جائے نماز پر ہی بیٹھے ہوئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جب میں دعا کے لیے ہاتھ بلند کرتا ہوں تو کہتا ہوں یااللہ میری رہنمائی فرما، مجھے استقامت عطا فرما، مجھے بہتر انسان بنا اور بہتر شخص بنا۔‘

’مجھے اپنی کمزوریوں کا علم ہے لیکن مجھے ہمت دے۔ میرے گناہ معاف فرما۔ یااللہ میرے عزیزوں اور قریبی لوگوں پر رحمت فرما۔ انھیں محفوظ رکھ، خاص طور پر بچوں کو۔ ہمیں اپنے قدموں پر مستحکم رکھ اور ہم جو ہیں اس پر تیرے شکر گزار ہیں۔‘

ولیمز کو اسلام قبول کیے ہوئے دس سال ہو چکے ہیں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ فرانس میں تولان کی طرف سے کھیلتے تھے اور اپنی زندگی کے ایک بالکل مختلف دور سے گزر رہے تھے۔ جہاں وہ اب ہیں اس وقت وہ اس کی دوسری انتہا پر تھے۔

رگبی یونین میں پانچ سال گزارنے کے بعد رگبی لیگ میں واپسی پر سپر لیگ میں شامل ہونے والے کلب ٹورنٹو وولف پیک کے ساتھ معاہدہ کرنے پر ولیمز اپنی زندگی سے مطمئن ہیں۔

شمالی امریکی ٹیم کے جنرل مینیجر چار مختلف مقابلوں میں ولیمز کی کامیابیاں گنوانا شروع کرتے ہیں جن میں نیوزی لینڈ کی طرف سے دو ورلڈ کپ، سنہ 2016 کے اولمپکس، کئی نیشنل رگبی لیگز میں اعزازات اور نیوزی لینڈ کے ہیوی ویٹ باکسنگ کا اعزاز شامل ہیں۔

34 سالہ ولیمز لندن کے آرسنل کے ایمیریٹس سٹیڈیم میں ایک تعارفی پریس کانفرنس میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو انگریزی، عربی اور ساموئن زبانوں میں خوش آمدید کہنے کے بعد آدھے گھنٹے تک ان کے سوالوں کے جوابات دیتے رہتے ہیں اور رگبی کی تاریخ کے سب سے مہنگے کھلاڑی بننے اور اپنے ساتھی کھلاڑیوں کی عزت حاصل کرنے پر انکساری کے بارے میں بات کرتے ہیں۔

ولیمز ایک پہاڑ جیسے انسان ہیں جن کا قد چھ فٹ چار انچ اور وزن تقریباً 109 کلوگرام ہے۔ ان کی شخصیت پورے کمرے پر چھائی ہوئی نظر آتی ہے۔ لیکن ان کا نرم گو مزاج ان کے حجم سے بالکل مختلف ہے۔

اس سے پہلے انھوں نے بی بی سی سپورٹس سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’الحمد اللہ کا مطلب سب کچھ ہے۔‘ پانی کا گلاس پینا الحمد اللہ۔ آپ سے بات کرنے کا موقع ملنا الحمد اللہ۔ بیوی اور بچوں سے ملنا الحمد اللہ۔ میرا خالق ہمیشہ میرے ذہن میں رہتا ہے۔

’کبھی کبھار میں اپنا سر سجدے میں رکھتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ حضرت عیسیٰ، حضرت موسیٰ اور پیغمبر اسلام اسی حالت میں رہتے تھے۔‘

’میں لڑکیوں کے پیچھے جاتا تھا۔ میں شراب نوشی کرتا تھا۔ شاہ خرچیاں کرتا تھا اور اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھتا تھا جو میں نہیں تھا۔ میں نے وہ زندگی گزاری اور میرا تجربہ یہ ہے کہ مجھے کیا ملا؟ دل میں ایک خلا اور ہلکا پن۔‘

اپنے ساتھی کھلاڑیوں سے بدھ کو پہلی مرتبہ مانچسٹر میں ملنے والے ولیمز کا کہنا تھا کہ اس سارے سلسلے میں چند سال لگے لیکن انھیں اللہ مل گیا، اسلام مل گیا اور انھیں اپنی زندگی میں مثبت تبدیلی لانے کا موقع ملا۔

ولیمز نے کہا کہ ایک اور مایہ ناز مسلمان کھلاڑی کے ’حقیقی پیار‘ کی طرح کا کوئی احساس نہیں ہو سکتا۔ فیورنٹیا فٹ بال کلب کے وِنگر، فران ربری ایسے شخص ہیں جن سے وہ سوشل میڈیا پر رابطے میں رہتے ہیں جب کہ وہ جنوبی افریقہ کی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور بلے باز ہاشم آملا سے بھی ’بہت قریب‘ ہیں۔

’آج کل کی دنیا میں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ہم جیسے بہت سے مسلمانوں کو مسلمان ہونے پر شرمندہ ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔‘

’مجھے مسلمان ہونے، اس کی صداقت اور سچائی، یہ جن چیزوں کا پرچار کرتا ہے اور جو کچھ یہ دیتا ہے، اس سب پر فخر ہے۔ میں جب دوسرے کھلاڑیوں کو دیکھتا ہوں جو فخر محسوس کرتے ہیں (تو میں سوچتا ہوں) واہ، یہ کتنی خوبصورت بات ہے۔‘

اس سال مارچ میں نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں ایک مسجد پر حملے میں 51 افراد کی ہلاکت کے بعد ولیمز نے سوشل میڈیا پر ایک نم زدہ آنکھوں کے ساتھ پیغام جاری کیا جس میں انھوں نے اپنے دلی صدمے کا اظہار کیا اور دعا کی کہ مرنے والوں کو اللہ جنت نصیب کرے۔

اس واقعے کے ایک ہفتے بعد ولیمز نے شہر کا دورہ کیا اور کمیونٹی کے لوگوں سے ملاقات اور اظہارِ یکجہتی کیا۔

انھوں نے کہا کہ نیوزی لینڈ میں سب سے مشہور اور معروف مسلمان ہونے اور اس وقت قومی رگبی ٹیم آل بلیکس کا رکن ہونے کے ناطے یہ میرا فرض تھا۔

’میں کافی شرمیلا ہوں لیکن مجھے اس کا سامنا کرنا تھا اور مجھے معلوم تھا کہ میں اس جگہ پر کافی پریشان رہوں گا۔ لیکن میں نے حوصلہ کیا اور نہ صرف مسلمان کمیونٹی کی نمائندگی جو صدمے کا شکار تھی بلکہ پورے نیوزی لینڈ کی نمائندگی کی۔

‘نیوزی لینڈ کے شہری ہونے کے ناطے ہم نے وہ کیا اور اب ہم اس حوالے سے رہنمائی کر رہے ہیں اور میں یہ کہنے میں فخر محسوس کرتا ہوں کہ میں اس کا حصہ ہوں۔’

جی ہاں میں کیوی ہوں، نیوزی لینڈ کا ساموئن باشندہ ہوں لیکن ایک انسان بھی ہوں۔ جو اسلام فراہم کرتا ہے وہ تمام انسانیت کے لیے ہے۔ میں نماز ادا کرتا ہوں ایک افریقی، ایک ایشیائی، ایک یورپی اور مشرق وسطیٰ کے شہری کے ساتھ اور ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے کے ساتھ۔

آپ احرام باندھے ہوئے ہوتے ہیں تو کوئی معاشی تفریق نہیں ہوتی، ہر آدمی برابر ہوتا ہے جو شاید سب سے افضل بات ہے۔

Shares: