پاکستان ایک عظیم نظریاتی ملک ہے۔ جو ہمارے عظیم رہنماؤں کی انتھک کوششوں اور قربانیوں کی مرہونِ منت ہے۔
ہمارے آباؤ اجداد نے قیامِ پاکستان میں اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اپنے مال ودولت، زمین، کاروبار کی فکر چھوڑی آنے والی نسلوں کا سوچا اور ہجرت کر کے پاکستان آ گئے۔
برصغیر میں مسلمانوں کو مذہبی آزادی نہ تھی۔ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں تھیں جن کا ساتھ رہنا ممکن نہ تھا اور یہی نظریہ قیام پاکستان کا موجب بنا۔
چناچہ ١٤ اگست ١٩٤٧ کو پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ بحیثیت مسلمان ہم پاکستانی جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں۔ ہماری اپنی منفرد تہذیب و ثقافت ہے۔
پھر کیوں ہم دوسروں کی شخصیت سے متاثر ہو جاتے ہیں؟؟ کیوں یورپ کی ثقافت ہمیں اپنی طرف مائل کرتی ہے؟؟ کیوں ہمسایہ ملک کی رسم و رواج کو ہم نے خود میں بسایا ہوا ہے؟؟
یہ سب دین سے دوری کا نتیجہ ہے۔ اگر ہم غور کریں تو زندگی گزارنے کے سنہری اصول آج سے چودہ سو سال پہلے بیان کر دیے گئے ہیں۔
قرآن و حدیث کا اگر مطالعہ کریں تو حقوق اللہ اور حقوق العباد مفصل انداز میں بتا دیے گئے ہیں۔
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور ہم خار ہوئے تارک قرآں ہو کر
اب یہ ہم پہ ہے کہ قولی کے ساتھ ساتھ کتنا فعلی مسلمان بھی بنا جائے۔ کیونکہ یہی تو دو قومی نظریہ تھا۔ یہی تو قیامِ پاکستان کا موجب تھا۔
ہمارے قومی دن جیسے یومِ قرار داد پاکستان، یومِ آزادی، یومِ دفاع اس لئے تو نہیں آتے کہ جھنڈیاں لگا لی جائیں، باجے بجا لیے جائیں یا پھر منچلوں کی ایک ریلی نکال لی جائے۔
یہ تو نئی نسل کو متحرک کرنے کا دن ہے۔ تاریخ دہرانے کا دن ہے کہ ہم کتنی دلیر اور جرات مند قوم ہیں۔
مگر افسوس کچھ لوگ ان دنوں کی اہمیت سے نا آشنا ہیں۔
پاکستان ہمارے لیے سب سے بڑھ کر ہونا چاہیے۔ دینی مصروفیات کے بعد، دنیاوی فکرات میں پاکستان ہماری اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ کیونکہ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ ہمیں لسانیت کو ترک کرکے قومیت کو فروغ دینا ہوگا۔
یہ وطن تمھارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے
دنیا میں ہم جہاں بھی ہوں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے ہوں۔ ہمارے قول و فعل میں تضاد نہ ہو۔ ہم صرف قولی نہیں بلکہ عملی پاکستانی ہوں۔ ہمارے رہن سہن، چال چلن اور ہمارے اطوار پاکستانی ثقافت کی عکاسی کرتی ہو۔
ہم ایک عظیم تاریخ رکھتے ہیں۔ ہمیں بھلا کسی کو فالو کرنے کی کیا ضرورت۔ جسے آج ہم فیشن یا آزادی کا نام دیتے ہیں وہ بے حیائی اور اسلام سے دوری کے علاوہ کچھ نہیں۔
ہر چیز اعتدال میں اچھی لگتی ہے اگر اس سے تجاوز کرو تو وہ اپنی اصل کھو دیتی ہے۔ اسی لیے اگر کسی غیر ملکی سے ہم متاثر ہوکر ہم وہی اطوار اپنانے کی کوشش کرتے ہیں تو اعتدال سے کریں کیونکہ اگر اس سے تجاوز کر گئے تو ہم اپنی اصل کھو دیں گے۔
پیچھے ہماری کیا شناخت بچے گی؟؟
خود کو پاکستان کا سفیر سمجھیں، پاکستان کا محافظ سمجھیں جسے پاکستان کی نظریاتی حدود کی رکھوالی کرنے ہے، جسے پاکستانیت کو فروغ دینا ہے۔
فضول کے رسم و رواج میں پڑنے سے بہتر ہے کہ دین سمجھیں اس سے ہم قربِ الہی بھی حاصل کرسکتے ہیں۔
اردو اور انگریزی زبان میں فرق ختم ہونا چاہیے۔ دونوں زبانوں میں کوئی مقابلہ نہیں۔ اردو ہماری قومی زبان ہے جس کی اپنی اہمیت ہے اور اس کی جگہ کوئی بھی زبان نہیں لے سکتی اور پاکستانی ہونے کے ناطے ہمارا اردو زبان سیکھنا بولنا اور استعمال کرنا لازم ہے۔
آئیں اس ١٤ اگست عہد کرتے ہیں کہ پاکستان کا وقار بلند کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے کیونکہ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔
خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
(آمین)
@AmnaKhanPK








