اخلاقیات انسان کی عادات واطوار کے معیار کا نام ہے۔ وہ سلوک اور طرز عمل جو معاشرے میں انسان ایک دوسرے کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔ اخلاقیات کسی بھی معاشرے کا حسن ہے، ہمارا ملک اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا اور اسلامی معاشرت رکھتا ہے، اسلام میں اخلاقیات کو بہت اہمیت حاصل ہے، اخلاقیات اور تعلیمات، اسلام کے دو بنیادی ستون ہیں۔ قرآن و حدیث میں اخلاقیات پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اخلاقیات کا درس قرآن کریم کی بنیادی تعلیمات ہیں۔
نبی کریم ص نے اپنے آپ کو اخلاق کا اعلیٰ ترین نمونہ بنا کر پیش کیا۔ اور اخلاقیات کی تکمیل کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "میرے نزدیک تم میں سے محبوب شخص وہ ہے، جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے۔” (بخآری)
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: "بے شک مومن کے اعمال میں سے سب سے وزنی چیز حسن اخلاق ہے۔”
اپنے اخلاق کو بہتر بنانا ہم سب کا فرض ہے۔ ہم جو بھی علم حاصل کرتے ہیں اس کا بنیادی مقصد اخلاق سیکھنا اور ان کو بہتر بنانا ہے۔ قرآن و سنت اور دنیاوی تعلیم سے اخلاق سیکھ کر معاشرے میں ہم ان کا پرچار کرتے ہیں۔
احسان، ایثار، حسن معاملات، عاجزی و انکساری، کسی کے ساتھ حسن سلوک کرنا، محبت و احترام کے ساتھ پیش آنا، عزت و تکریم دینا، تمیز و تہذیب کے ساتھ گفتگو کرنا، مہربانی کرنا، سچ بولنا، ایمانداری اور دیانتداری کو اپنا وصف بنانا، عملی برداشت کا مظاہرہ کرنا، یہ سب اخلاقیات ہے۔ بے شک حسن اخلاق کے زریعے ہی انسان دلوں کو تسخیر کر سکتا ہے۔ اخلاقیات کی وجہ سے ہی انسان اشرف المخلوقات کہلانے کے لائق ہے۔ اخلاق کے بغیر انسانوں کا معاشرہ محض جانوروں کا گروہ ہے۔ جب تک انسان میں اخلاقیات زندہ رہتی ہے، وہ انسان رہتا ہے، اس میں اچھائی کا مادہ باقی رہتا ہے، جب اس کے اخلاق تباہ ہوتے ہیں تو وہ درندہ بن جاتا ہے، اخلاق کے خاتمے سے برائی اور بے حیائ جنم لیتی ہے۔ معاشرہ بدحالی کا شکار ہو کر انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں رہتا اور انسانیت نت نئے مسائل سے دوچار رہتی ہے۔
انسان کو چاہیے کہ بہتر اخلاق کو اپنائے اور اخلاقیات کو زندہ رکھے۔ انسان کہلانے کا اصل حقدار وہی ہے جو خود کو، اپنی عقل کو، اپنے تمام معاملات کو حسن اخلاق کے تابع کرے۔ منفی رویوں اور جذبات سے خود کو دور کر لے ان کا مثبت جواب دے، اگر کوئی برا سلوک روا رکھے تو اپنا اخلاق تباہ نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اس کو مثبت توانائی سے جواب دینا چاہیے اور اخلاق سے قاءیل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے ساتھ بہتر سلوک کر کے اچھیء مثال قائم کرنی چاہیے۔ اس کی دیکھا دیکھی معاشرے کے دوسرے فرد بھی حسن اخلاق کے قاءیل ہوں گے۔ حدیث کا مفہوم ہے کہ، کوئی تمہیں گالی دے تو تم اسے دعا دو۔ اس کے کے برے عمل کا اچھے عمل سے جواب دو، یہ یقیناً اس پر اثر انگیز ہو گا۔ اور اس کے سدھار کاء سبب بنے گا۔
اخلاقیات معاشرے میں رہنے والے کسی بھی شخص کی انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح کی زندگی میں اہمیت کی حامل ہے۔اچھے اخلاق کا حامل شخص زاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میںر کامیاب ہوتا ہے، پسند کیا جاتا ہے۔ عزت و تکریم دی جاتی ہے۔ بلا شبہ بہتر اخلاق کا مظاہرہ کرنا ہی انسانیت ہے اور قابلء ستائش ہے۔ انسان کی زندگی کے روزمرہ کے بہت سے معاملات اچھے اخلاق کو اپنانے سے بہتر ہے ہو سکتے ہیں، اور زندگی میں سکون آ سکتا ہے۔
آج کے دور میں لوگ بہت شدت پسند مزاج کے کے حامل ہیں۔ لوگوں کے اخلاق تباہ ہو چکے ہیں، اخلاقیات عنقا ہو گئی ہے جھوٹ، لالچ، بد دیانتی، مفاد پرستی، گالم گلوچ، لڑائی جھگڑا، قتل و غارتگری ، کینہ و حسد، بغض، تکبر خود غرضی، رشوت و سفارش، ملاوٹ، کرپشن و بدعنوانی، غرض یہ کہ ہم من حیث القوم اخلاقی زبوں حالی کا شکار ہیں۔ اسے معاشرے میں رہتے ہوئے ہم کیسے مہزب کہلا سکتے ہیں، کیسے اخلاقیات کا درس دے سکتے ہیں۔ ہمیں اس اخلاقی انحطاط سے نکلنا ہو گا۔ ایسے میں عملی اخلاقیات کی بہت ضرورت و اہمیت ہے۔ ہمیں اچھے اخلاق اپنا کر ان کا پرچار کرنا ہو گا، خود کو بہتر اخلاق سے پیراستہ کر کے اخلاق کا درس عام کرنا ہو گا۔ ایک دوسرے کے ساتھ اچھے اخلاق اور حسن سلوک سے ہی بہتر معاشرہ پروان چڑھ سکتا ہے۔
@FarooqZPTI