بھیک مانگنا ایک گناہ ہے تحریر: اعجاز احمد پاکستانی

ایک دفعہ ایک غریب و مفلس شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی حالتِ زار بیان کرتے ہوئے مدد طلب کی. حضور اکرم ﷺ اگر چاہتے تو اسکی مدد کرسکتے تھے خود یا پھر کسی صحابیؓ سے کہہ دیتے مدد کرنے کو. اگر پیغمبرِ اسلام ﷺ ایسا کرتے تو انکی وقتی مدد تو ہوجاتی لیکن دوسرے دن پھر اسکو ضرورت ہوتی اور انکو مانگنے کی عادت پڑ جاتی اس لئے ایسا کرنے کے بجائے پیغمبرِ اقدس ﷺ نے اس کے جسم پر لپٹے کمبل کے بارے میں سوال کیا کہ کیا یہ تمہارا اپنا ہے؟ اس نے جواب ہاں میں دیا. حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اس سے وہ کمبل لیا اور بازار جا کر وہ بیچ دیا. اس سے جو رقم حاصل ہوا اس سے ایک کلہاڑی اور رسی خریدی اور جو تھوڑے بہت پیسے بچے وہ اس کے ہاتھ میں دئے اور فرمایا یہ کلہاڑی اور رسی لو اور جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لایا کرو اور وہ لکڑیاں بیچ کر اپنا کام چلایا کرو اللہ تعالیٰ اس میں برکت دیگا.
اسی طرح کی ایک مثال چینی زبان کا بھی ہے کہ اگر تمہارے پاس کوئی آئے اور ایک وقت کا کھانا مانگے تو اس کو ایک وقت کھانے کیلئے ایک مچھلی نہ دے بلکہ اسے ایک جال دو مچھلیاں پکڑنے کیلئے تا کہ وہ مچھلیاں پکڑے اور اپنی روزی روٹی کا بندوبست خود کرے.
کتنی تعجب کی بات ہے چینیوں نے تو اس کہاوت پر عمل درآمد کرکے خود کو بامِ عروج پر پہنچا دیا اور دوسری طرف ہم اپنے پیغمبرِ اکرم ﷺ کی منشاء کے خلاف چندوں، بھیک اور مانگنے کے خوگر ہوگئے. بھیک مانگنا باقاعدہ ایک کاروبار بن گیا ہے نہ کہ ایک مجبوری اور اس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے جو کہ انتہائی تشویش کی بات ہے. لیکن کیا کرے ہم تو 10، 20، 50، 100 پکڑا کر جان چھڑا لیتے ہیں جو کہ دراصل یہ ہماری طرف سے اس کو پروان چڑھانے میں ہمارا کردار ہوتا ہے لیکن ہم اس پہلو کو سوچتے ہی نہیں.
اور یہ کوئی شاذ و نادر نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ صرف عوامی سطح سے ممکن ہوتا ہے بلکہ ہماری حکومتیں بھی لوگوں کو عارضی امداد دے کر بھکاری بنا دیتی ہیں. ہماری پچھلی سے پچھلی حکومت نے تو اس کام کو اتنا بامِ عروج پر پہنچادیا تھا کہ سیدھے سیدھے اپنے کام کرنے والے اپنے ہاتھوں سے رزق حلال کمانے کا تصور ہی ختم ہوگیا تھا. اس حکومت نے اس رقم میں اور بھی اضافہ کر دیا. یہ اچھا اقدام بھی ہے کہ یتیموں اور بیواؤں کی مدد ہوگی اور وہ رزق کی تنگی سے بچینگے اس حد تک تو یہ درست ہے لیکن اس آڑ میں یہ پیسے 40 فیصد غیر مستحق لوگوں کی جیبوں میں جاتے ہیں جبکہ بعض جگہوں میں تو ایک ہی گھر کے دو دو، تین تین بندوں کو ملتے ہیں جو درحقیقت مستحقین کی حق تلفی کا باعث بنتا ہیں.
اس سے اگر ایک طرف بے روزگاری، بے ہنری اور مانگنے کا رجحان بڑھا ہے تو دوسری جانب ایک اور خطرناک صورتحال بھی پیدا ہوئی ہے. کچھ عرصے تک مفت کی کھانے والوں کو اس کی عادت پڑ جاتی ہے. پھر وہ کام کرنے کے بجائے تاک میں رہتے ہیں کہ کہاں سے کچھ ہاتھ آسکتا ہے اور جب ہاتھ کچھ نہیں آتا تو ہیرا پھیری، چوری چکاری اور جرائم کی راہ پر نکل جاتے ہیں اور پورا معاشرہ اس کے جرائم کا شکار بن جاتا ہے.
لیکن کیا کیجئے کہ ہمارے معاشرے میں مفت کھانے اور مفت کھلانے کا یہ رجحان اتنا گہرا ہوگیا ہے کہ اس کو عیب کی بجائے ایک ہنر کا درجہ حاصل ہوگیا ہے. ہماری تباہی اور زوال کا باعث ہی یہ رجحان ہے.
ہمیں اس کے تمام پہلوؤں پر غور کرنا ہوگا تا کہ آگے بڑھ کر اس کا سدباب کیا جاسکے. . ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو اس لت سے بچانا ہوگا تب ہی ہمارا معاشرہ اور ملک ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہوگا. وگرنہ ہم ایسے ہی بھکاری رہینگے اور یہ لت نسل در نسل، پشت در پشت ہم میں منتقل ہوتی رہیگی. اور اقوام عالم میں ہماری کوئی عزت نہیں ہوگی. بلکہ ہماری پہچان ایک بھکاری قوم سے ہوگی.
اللہ تعالیٰ پاکستان پر اپنا خصوصی فضل و کرم فرمائے کہ پاکستان دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے اور دنیا میں ایک ممتاز مقام حاصل کرے.
آمین
*پاکستان زندہ باد*

Twitter ID:
@IjazPakistani

Comments are closed.